Science

6/recent/ticker-posts

سائنس کی نمو اور ابراہیم بن جندب

خلافت عباسیہ کے قیام سے سائنسی تحقیقات کا وہ دور شروع ہوا جسے اسلامی تاریخ میں سائنس کا سنہری دور کہا جاتا ہے۔ اس سلطنت کا پہلا حکمران اگرچہ ابوالعباس سفاح تھا لیکن اس کا حقیقی بانی اس کا بھائی ابو جعفر منصور ہے جو 754ء میں سفاح کے مرنے کے بعد تخت نشین ہوا۔ منصور ہی کے زمانے میں اسلامی علوم و فنون کی اس تحریک کا آغاز ہوا جس نے اس کے نامور پوتے ہارون الرشید کے عہد میں وسعت پائی۔ منصور اپنی انتظامی خوبیوں کے علاوہ علوم سائنس کا بھی سرپرست تھا۔ اس زمانے میں سائنس کی مشہور شاخیں ریاضی، ہیئت، کیمیا، طب اور حیاتیات تھیں جن میں سے ریاضی، ہیئت اور طب کو خاص اہمیت حاصل تھی اس لیے پورے اسلامی دور میں جن سائنس دانوں نے علم کے دربار میں نام پایا، ان کی اکثریت ریاضی، ہیئت اور طب ہی سے منسلک تھی۔

منصور نے مختصر عرصہ حکومت کر کے 775ء میں وفات پائی اور اس کے بعد اس کا بیٹا مہدی اور پھر اس کا پوتا ہادی یکے بعد دیگرے تخت خلافت پر متمکن ہوئے۔ ان دونوں حکمرانوں کا زمانہ سلطنت بہت قلیل ہے۔ چنانچہ مہدی نے 775 سے 785 تک آٹھ سال حکومت کی، مگر اس کے فرزند اور جانشین ہادی کو محض دو سال کی فرماں روائی نصیب ہوئی۔ ہادی 785ء میں تخت خلافت پر بیٹھا مگر دو ہی برس بعد جواں سالی میں موت کا بلاوا آ گیا۔ جب ہادی کے انتقال کے بعد حکومت اس کے نامور بھائی ہارون الرشید کے ہاتھ آئی تو سلطنت عباسیہ کا زریں دور شروع ہوا۔ چونکہ منصور اور ہارون کی خلافت کے درمیان محض 10 سال کا عرصہ ہے اس لیے جو سائنس دان منصور کے دربار سے تعلق رکھتے تھے انہوں نے بالعموم ہارون الرشید کا زمانہ بھی دیکھا تھا اور علوم و فنون کے اس مربی حکمران کی دادو دہش سے ایک وافر حصہ پایا تھا۔ اس وجہ سے جہاں سائنس کا تعلق ہے ہم اس دور کو ملا کر منصور اور ہارون کا دور کہہ سکتے ہیں۔

اس عہد کا سب سے نامور سائنس دان تو جابر بن حیان ہی ہے۔ ذیل میں اس عہد کے ایک اور سائنس دان کا ذکر ہے۔ سائنس کی ایک شاخ ’’ہیئت‘‘ یعنی اسٹرانومی ہے جو اجرام فلکی مثلاً سورج، چاند سیاروں اور ستاروں سے متعلق ہے اور اسی وجہ سے اسے بعض اوقات ’’فلکیات‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ قدیم زمانے سے ہر ملک کے لوگوں کو فلکیات سے دلچسپی رہی ہے، لیکن مسلمانوں نے اپنے دور حکمرانی میں جتنا شغف مطالعہ افلاک میں دکھایا، اس کی نظیر اس زمانے کی دنیا میں نہیں ملتی۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی دور کے جن سائنس دانوں نے اپنے علمی کارناموں سے شہرت دوام کے دربار میں جگہ حاصل کی، ان کی اکثریت ہیئت دانوں کی ہے۔ آٹھویں صدی کے اس دور میں سلطنت عباسیہ کے قیام کے بعد مسلمان دانشوروں میں ’’ہیئت‘‘ کے متعلق مطالعہ و تحقیق کا آغاز ہو چکا تھا، جو نویں اور دسویں صدی میں اپنے عروج کو پہنچا۔ 

اس عہد کے چند مشہور ہیئت دانوں کے نام ہم تک پہنچے ہیں جو عباسی سلطنت کے دو نامور خلفا منصور اور ہارون الرشید سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان ہیئت دانوں میں ابتدائی اور اہم نام ابراہیم بن جندب کا ہے۔ ابراہیم بن جندب خلیفہ منصور کا ہم عصر تھا اور اسی کے دربار سے منسلک رہا تھا۔ ابراہیم بن جندب کا سب سے بڑا کارنامہ ایک ترقی یافتہ اصطرلاب کی ایجاد ہے۔ یہ آلہ اگرچہ یونانی دور میں بھی استعمال ہوتا تھا، مگر ’’یونانی اصطرلاب‘‘ بہت ناقص قسم کا تھا۔ ابراہیم بن جندب نے اس کے نقائص کو دور کیا۔ اس کے چکر پر بہتر طریقے سے زاویوں کے درجے لگائے اور ہر درجے کو آگے دو دو حصوں میں تقسیم کیا، جس کے باعث اس اصطرلاب سے نہ صرف درجوں تک بلکہ تیس تیس منٹ (یعنی نصف درجے) تک کی پیمائشیں لی جا سکتی تھیں۔ یہ آلہ دو نلیوں پر مشتمل ہوتا تھا اور ایک سیدھے سٹینڈ پر کسا جا سکتا تھا۔ ان میں سے ایک نلی تو جمی ہوئی تھی اور ساکن رہتی تھی لیکن دوسری نلی ایک چکر کے ساتھ حرکت کر سکتی تھی۔ اس چکر پر زاویے کے درجے لگے ہوتے تھے۔ اصطرلاب سے دو اجرام فلکی مثلاً دو ستاروں کے درمیان یا ایک ستارے اور افقی خط (ہوریزان) کے درمیان زاویے کی پیمائش کی جاتی تھی۔

حمید عسکری


 

Post a Comment

0 Comments