Science

6/recent/ticker-posts

ابوالقاسم زہراوی کے علمِ جراحت اور یورپ پر احسانات

اندلس کی اسلامی سلطنت کے بعض نامور سائنس دان بلاشبہ اپنے اپنے فن میں مہارتِ تامہ رکھتے تھے لیکن شاید اس دور کی سب سے عظیم شخصیت، جس کے کمال کا لوہا صدیوں تک اہل مغرب مانتے رہے، ابوالقاسم خلف بن عباس زہراوی ہے۔ سپین کے مشہور حکمران عبدالرحمان الناصر نے اپنے دارالسلطنت قرطبہ سے چار میل کے فاصلے پر ایک عظیم الشان محل تعمیر کرایا تھا اور اس کا نام اپنی ملکہ زہرا کے نام پر ’’قصرِ زہرا‘‘ رکھا تھا۔ رفتہ رفتہ اس قصر کے گرد اعیان سلطنت اور دوسرے لوگوں نے اپنے مکان بنا لیے اور وہاں ایک علیحدہ شہر بس گیا جو ’’الزہرا‘‘ کے نام سے موسوم ہوا۔ یہی ذیلی شہر ابوالقاسم خلف بن عباس کا مرزبوم تھا اور اسی شہر کی نسبت سے ’’زہراوی‘‘ لقب اس کے نام کا جزو بن گیا ہے۔ 

ابوالقاسم زہراوی کے آباؤاجداد اندلس ہی کے رہنے والے تھے۔ اس کی ولادت 936ء کے لگ بھگ عبدالرحمان الناصر ہی کے عہد میں ہوئی جو شاہان اندلس میں آٹھواں فرمانرواں تھا۔ اس کے عہد میں اندلس کا دارالسلطنت قرطبہ اپنی عظمت کے اوج پر پہنچا ہوا تھا۔ چنانچہ اس کی شان و شوکت کا اندازہ اس امر سے ہو سکتا ہے کہ اس میں تین ہزار آٹھ سو مسجدیں، ساٹھ ہزار سربفلک عمارتیں، عام لوگوں کے دو لاکھ مکانات، آٹھ ہزار دکانیں اور سات سو حمام تھے۔ قرطبہ کی آبادی 10 لاکھ باشندوں پر مشتمل تھی جس کے 50 سرکاری ہسپتال موجود تھے۔ قرطبہ کی شاہی لائبریری میں دو لاکھ سے زائد کتابیں تھیں۔ قرطبہ یونیورسٹی اس زمانے میں مغرب کی عظیم ترین یونیورسٹی تھی جہاں مختلف مضامین کے جلیل القدر علما تعلیم و تدریس اور تحقیق و تالیف میں مصروف رہتے تھے۔ 

یہی وہ ماحول تھا جس میں ابوالقاسم زہراوی نے اپنا لڑکپن اور جوانی گزاری۔ اس کے کمال فن کو دیکھ کر یہ اندازہ آسانی سے کیا جا سکتا ہے کہ اس نے اس علمی ماحول سے پورا فائدہ اٹھایا اور طب میں، جو اس کا خاص مضمون تھا، کامل دست گاہ حاصل کی۔ اپنی تعلیم کی تکمیل کے بعد وہ قرطبہ کے شاہی شفاخانے کے ساتھ منسلک ہو گیا اور یہاں اس نے اس عملی تحقیق کا آغاز کیا جس نے تھوڑے ہی عرصے میں اس کو جدید علم الجراحت کا موجد اور اپنے زمانے کا سب سے بڑا سرجن بنا دیا۔ موجودہ زمانے میں علمِ علاج کے جو دو طریقے یعنی دوا سے علاج (میڈیسن) اور جراحت سے علاج (سرجری) ہسپتالوں میں مروج ہیں، ان کے متعلق یہ خیال عام ہے کہ اگرچہ مغربی طب، یعنی ایلوپیتھی دیسی طب ہی کا چربا ہے، مگر جراحت یعنی سرجری خاص مغربی ڈاکٹروں کی چیز ہے جس میں کوئی ان کا ہم سر نہیں ہے۔ 

لیکن اس خیال کے پھیلنے کی وجہ محض یہ ہے کہ ہمارے عوام اسلامی دور کے عظیم سرجن ابوالقاسم زہراوی کے نام اور اس کے کارناموں سے واقف نہیں، ورنہ یہ حقیقت ہے کہ ابوالقاسم زہراوی ہی وہ عظیم شخصیت ہے جس نے اہل یورپ کو سرجری کے فن سے روشناس کرایا۔ ابوالقاسم زہراوی سرجری میں جو نادر آپریشن انجام دیتا تھا، اپنے روز افزوں تجربے سے اس فن میں جو نئی نئی راہیں دریافت کرتا تھا، آپریشن کرنے کے لیے اپنی نگرانی میں جو نئے نئے آلات بنواتا تھا، ان سب کی تفصیل وہ احاطہ قلم میں بھی لاتا جاتا تھا، یہاں تک کہ اس کے قلم سے عملی سرجری پر ایک یگانہ روزگار تصنیف ظہور میں آ گئی جو صدیوں تک یورپ کی یونیورسٹیوں میں سرجری کی واحد معیاری کتاب کے طور پر داخلِ درس رہی۔ ابوالقاسم زہراوی کی اس کتاب کا نام تصریف ہے۔ 

یہ پوری کتاب علمِ علاج کی دو شاخوں، طب یعنی میڈیسن اور جراحت یعنی سرجری پر مشتمل ہے لیکن اس کا سب سے اہم حصہ سرجری کا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سے پہلے طب یعنی میڈیسن پر تو عربی میں بہت سی کتابیں لکھی جا چکی تھیں لیکن جراحت یعنی سرجری پر اعلیٰ معیار کی پہلی مفصل کتاب تصریف ہی تھی۔ اپنی خاص افادیت کے باعث تصریف کے حصہ سرجری کی اشاعت اتنی زیادہ ہوئی اور اس کے ترجمے اتنی تعداد میں چھپے کہ عام طور پر جب ابوالقاسم زہراوی کی تصریف کا ذکر آتا ہے تو اس سے تصریف کی سرجری کی کتاب ہی مراد ہوتی ہے۔ تصریف تین بڑے حصوں میں منقسم ہے۔ اس کا پہلا حصہ داغ دینے کے متعلق ہے جو ازمنہ وسطیٰ کے بعض امراض کے علاج میں برتا جاتا تھا۔ 

تصریف کے دوسرے اور تیسرے حصے میں عملی جراحت کا بیان ہے اور یہی اس کتاب کے اہم ترین حصے ہیں۔ ان میں دانت نکالنے، آنکھوں کا آپریشن کرنے، حلق کا کوا کاٹنے، مثانے میں سے پتھری نکالنے، بواسیر کے مسوں کو کاٹنے، ٹوٹی ہڈی کو جوڑنے، اترے ہوئے جوڑوں کو چڑھانے، ماؤف عضو کاٹنے اور ہر قسم کے پھوڑوں کو چیرنے کی تفصیلات دی گئی ہیں۔ کتاب کا ایک خاص حصہ حمل اور پیدائش سے متعلق ہے۔ مختصر یہ کہ جراحت میں 90 فیصد جن اعمال سے ایک سرجن کو سابقہ پڑتا ہے، ان میں سے کسی کی تفصیل اس تصنیف میں چھوٹ نہیں گئی۔ ان اعمال جراحت کے لیے جن آلات کی ضرورت ہوتی ہے، ان کی تشریح نہایت خوبصورت تصاویر سے کی گئی ہے۔ 

ان آلات میں قاثاطیر، یعنی پیشاب خارج کرنے کا آلہ، مقلاع الاسنان، یعنی دانت نکالنے کا آلہ، محقن، یعنی انیما کرنے کا آلہ، مختلف قسم کے نشتر، قینچی، آری، سرجنوں کی سلائی، زخموں کو سینے کے لیے مختلف شکل کی سوئیاں سب ہی شامل ہیں۔ ان میں سے ہر آلے کی ساکت تصویر کی مدد سے اور طریق استعمال الفاظ کے ذریعے سمجھایا گیا ہے۔ تصریف سے پہلے جراحی پر نہ اتنے پائے کی کوئی کتاب لکھی گئی تھی اور نہ علم جراحت کے متعلق اتنی خوبصورت تصاویر شائع کی گئی تھیں۔ تصریف کی نمایاں خصوصیات یہ ہیں کہ فاضل مصنف نے اس میں جابجا اپنے تجربات کی روشنی میں سرجری کے متعلق ایسی تصریحات کی ہیں جن سے طبی دنیا اس سے پہلے بے خبر تھی۔ 

ابوالقاسم زہراوی کا طرزبیان عام فہم اور زبان سادہ ہے۔ وہ جس موضوع پر قلم اٹھاتا ہے اس کے تمام رموز اس خوبی سے بیان کرتا ہے کہ قاری کے لیے کسی قسم کا الجھاؤ باقی نہیں رہتا۔ پھر بعض دیگر طبی مصنفوں کی طرح وہ فلسفیانہ موشگافیوں میں نہیں الجھتا بلکہ اپنے فن کے عملی پہلوؤں کو سامنے رکھتا ہے اور صرف انہیں امور کی توضیح کرنا ضروری خیال کرتا ہے جو عملی افادیت کے حامل ہوں۔ اہل مغرب جو مسلمانوں کے ناموں کو بگاڑنے میں خاص مہارت رکھتے ہیں، ابوالقاسم زہراوی کو ابوالکاسس (Abulcasis) البوکاسس (Albucasis) اور الزہراویس کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ یورپ میں ازمنہ وسطیٰ سے لے کر اٹھارویں صدی تک کے تمام مغربی مصنف، جنہوں نے سرجری پر کتابیں لکھیں، ابوالقاسم زہراوی کی فنی قابلیت کے معترف ہیں اور جابجا اس کی کتاب سے حوالے دیتے ہیں۔ 

ان میں سے بعض نے تو صاف طور پر اس امر کا اظہار کیا ہے کہ فن جراحت میں زہراوی ایک استاد کامل کی حیثیت رکھتا ہے اور اہل یورپ نے ابتداً سرجری میں جو کچھ حاصل کیا ہے وہ صرف ابوالقاسم زہراوی ہی کی بدولت ہے۔ ابوالقاسم زہراوی کی کتاب تصریف صدیوں تک یورپ کی تمام بڑی بڑی یونیورسٹیوں میں داخل درس رہی اور مغرب کے سرجن اس کتاب کے مندرجات کو سند کے طور پر پیش کرتے رہے۔ تصریف کا لاطینی ترجمہ سب سے پہلے وینس سے پندرہویں صدی کے اواخر میں شائع ہوا۔ اس کے بعد اس کے متعدد لاطینی ایڈیشن یورپ کے مختلف اشاعتی مراکز سے شائع ہوئے۔ اس کا سب سے عمدہ لاطینی ایڈیشن، جس میں عربی کتاب کی اصل تصویریں بھی نہایت آب و تاب سے چھاپی گئی تھیں، سولہویں صدی کے وسط کے قریب باسل میں طبع ہوا۔ باسل ایڈیشن کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ اس میں اصل عربی کتاب اور اس کا لاطینی ترجمہ دونوں ایک ہی جلد میں شامل تھے۔ یورپ میں اس کتاب کی مقبولیت انیسویں صدی کے آخر تک بھی باقی تھی۔ یورپ کے فضلا نے تصریف کو محض اپنی زبانوں میں منتقل کرنے ہی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ان میں سے بعض نے اس کتاب پر شرحیں بھی لکھی تھیں۔

حمید عسکری

Post a Comment

0 Comments