Science

6/recent/ticker-posts

عرب مسلمانوں کا علم یورپ میں

دسویں صدی عیسوی کے خاتمہ پر عرب مسلمانوں کی سائنس جرمنی، سوئٹرزلینڈ اور وسطی یورپ کے علاقوں میں متعارف ہوئیں اور عرب ثقافت کی درس و تدریس کے کئی مراکز تشکیل پائے۔ 953ء کی ابتدا میں شہنشاہ جرمنی اوتو اعظم نے اپنے ایک راہب کو قرطبہ روانہ کیا، جہاں اس نے عربی زبان سیکھی اور جب وہ واپس آیا تو اپنے ساتھ عربی علمی مخطوطات لایا۔ تقریباً اسی زمانے میں عرب مسلمانوں سائنس کو جزائر برطانیہ میں متعارف کرایا گیا۔ برطانوی شائقینِ علم مثلاً اڈلر آف باتھ، مائیکل اسکاٹ اور دیگر طلبا و محققین عرب علم و ثقافت کو حاصل کرنے کے لیے جوق در جوق سپین کا رخ کرنے لگے۔ 

روجر بیکن کی معلومات کی بنیاد زیادہ تر عرب مسلمانوں کے ذرائع ہی پر تھی۔ یورپ کی یونیورسٹیوں کے ظہور میں آنے کے ساتھ ہی عرب علم و حکمت ذہنی جدوجہد کا مرکز بن گیا اور اس کی تحصیل میں دلچسپی لی جانے لگی۔ پیرس اور آکسفورڈ سمیت دیگر معروف مقامات کی یونیورسٹیوں کے نصاب تعلیم کا بیشتر حصہ عرب مسلمانوں کی سائنس اور لٹریچر سے تشکیل دیا گیا۔ اس لحاظ سے یونیورسٹیوں کے فروغ میں عرب سائنس ایک اہم ذریعہ اور واسطہ بنی۔ بہت سے اہم مخطوطات اور بالخصوص عرب مصنفین کی لکھی ہوئی کتابیں یورپیوں کے قبضے میں بھی آ گئیں تھیں۔ 

عہد وسطیٰ میں فرانسیسی شہر مونٹ پلیر کا علوم کے حوالے سے بہت شہرہ تھا۔ وہاں کا ایک درخشاں ستارہ ہیری ڈی موندی وائل تھا۔ وہ قرون وسطیٰ کا ایک مخصوص طرز کا اور نامور سرجن تھا ۔ اسے فرانسیسی سرجری کا بانی بھی کہا جاتا ہے۔ عربی کے غالب ہونے کا اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ ہیری کے اقتباسات کا ایک بڑا حصہ عربی ذرائع سے ماخوذ ہے۔ یونانی علم و ثقافت کو حاصل کرنے میں عرب مسلمانوں کو جتنی جدوجہد اور مشقت اٹھانی پڑی تھی اہل مغرب کو عربوں کی سائنس اور کلچر کے حصول میں اتنی دشواری اور درد سری مول نہیں لینی پڑی بلکہ یہ سب چیزیں بآسانی ان کو دستیات ہو گئیں۔ عربوں نے اس یونانی سائنس میں نئی جان ڈال دی ۔ عربوں کے دور عروج کے آغاز میں یہ سائنس اتنی ترقی یافتہ نہ تھی۔ عرب سائنس کو اہل یورپ نے ہاتھوں ہاتھ لیا اور اس وقت تک وہ وہ بہت جاندار اور بارآور بن چکی تھی اور اپنے بام عروج پر پہنچ چکی تھی۔

معروف آزاد


 

Post a Comment

0 Comments