Science

6/recent/ticker-posts

عبدالمالک اصمعی : ادیب، شاعر اور ماہر لسانیات

عبدالمالک اصمعی کو، جس کا پورا نام عبدالمالک بن قریب اصمعی تھا، عربی ادب میں ایک اونچا مقام حاصل ہے کیوں کہ وہ عربی کا ایک اعلیٰ پائے کا ادیب، شاعر اور ماہر لسانیات ہو گزرا ہے لیکن اس کی پانچ مشہور کتابوں میں جن کا تذکرہ آگے آئے گا، کے ساتھ ساتھ اتنی قابل قدر سائنسی معلومات اکٹھی ہو گئی ہیں کہ جن کے باعث اہل مغرب نے اس کا شمار سائنس دانوں کے اس گروہ میں بھی کیا ہے جو ماہر حیوانات کہلاتے ہیں۔ سائنس کا وہ مضمون جس میں جان داروں کے حالات سے بحث ہوتی ہے، حیاتیات کے نام سے موسوم ہے۔ پھر چوں کہ جان دار اشیا دو حصوں یعنی نباتات اور حیوانات میں منقسم ہیں، اس لیے اس مضمون کے بھی دو حصے ہو گئے ہیں۔ ان میں ایک حصہ نباتیات ہے جو پودوں کی سائنس ہے اور دوسرا حصہ حیوانیات کا ہے جو حیوانات کی سائنس ہے۔ 

عبدالمالک بن قریب اصمعی نے ادب، شاعری اور لسانیات کے علاوہ جو اس کے محبوب مضامین تھے اور جن کے باعث اس کو حقیقی شہرت حاصل ہوئی، حیوانیات کو بھی اپنی تحقیقات کا میدان بنایا تھا، جس کی وجہ سے اسے ادیب شاعر اور زبان دان کے ساتھ ساتھ ایک سائنس دان ہونے کا بھی شرف حاصل ہو گیا۔ اصمعی ایک عرب خاندان سے تعلق رکھتا تھا جس نے بصرے میں سکونت اختیار کر رکھی تھی۔ اسی شہر میں 740ء میں اصمعی کی ولادت ہوئی اور یہیں اس نے تعلیم پائی، البتہ جوانی میں وہ دارالسلطنت بغداد میں چلا آیا۔ اس کے بعد اس کے ایام کبھی بغداد میں اور کبھی بصرے میں گزرنے لگے۔

اپنی آخری عمر میں وہ دوبارہ مستقل طور پر بصرے میں مقیم ہو گیا تھا، جہاں اس کے بیٹے اور پوتے رہائش پذیر تھے۔ اس نے طویل عمر پائی اور بصرے میں داعی اجل کو لبیک کہا۔ جب عبدالمالک اصمعی نے حیوانیات میں اپنی تحقیقات کا آغاز کیا تو اس نے قدرتی طور پر سب سے اول ان جانوروں کو چنا جن کے ساتھ عربوں کو زیادہ سے زیادہ دلچسپی تھی۔ ان میں گھوڑا پہلے نمبر پر آتا تھا۔ اس قدیم زمانے میں تو وہ دنیا بھر میں لاثانی تھے۔ گھوڑوں کے متعلق اصمعی نے جو کتاب لکھی اس کا نام کتاب الخیل ہے۔ خیل عربی میں گھوڑوں کو کہتے ہیں۔ 

گھوڑے کے بعد عربوں کو جس حیوان کے ساتھ سب سے زیادہ دلچسپی ہو سکتی تھی، وہ اونٹ تھا، جسے صحرائی عربوں کی زندگی میں ہمیشہ سے خاص اہمیت حاصل رہی ہے اور اسی وجہ سے یہ صحرا کا جہاز کہلاتا ہے۔ اصمعی کی حیوانیات پر دوسری کتاب اونٹوں کے بارے میں ہے۔ اس کا نام کتاب الابل ہے جس کے لفظی معنی اونٹوں کی کتاب کے ہیں۔ عربوں کو تیسرے نمبر پر جس حیوان کے ساتھ دلچسپی تھی وہ بھیڑیں تھیں، جن کے ریوڑ وہ پالتے تھے اور جہاں کہیں انہیں سبزہ نظر آتا تھا، ان ریوڑوں کو چراتے پھرتے تھے۔ اصمعی کی حیوانیات کی تیسری کتاب بھیڑوں کے متعلق ہے۔ اس کا نام کتاب الشا ہے جس کے لفظی معنی بھیڑوں کی کتاب کے ہیں۔ حیوانیات پر اصمعی کی چوتھی کتاب پہلی کتابوں سے زیادہ ضخیم ہے کیوں کہ کسی خاص حیوان کی بجائے اس میں ان متعدد حیوانات کا ذکر ہے جو جنگل میں پائے جاتے ہیں۔ اس کتاب کا نام کتاب الوحوش ہے۔ وحوش وحشی کی جمع ہے اور اس کے معنی جنگلی جانوروں کے ہیں۔ حیوانیات میں سب سے اعلیٰ مرتبہ انسان کا ہے جو حیوانِ ناطق ہے اور مخلوق میں سب سے اشرف ہے۔ 

اس لحاظ سے اصمعی کی پانچویں اور آخری کتاب انسانی جسم کے اعضا کی تشریح اور ان کے افعال کے بارے میں ہے۔ اس کا نام کتاب خلق الانسان ہے جس کے لفظی معنی ’’انسان کی کتابِ پیدائش‘‘ کے ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ اصمعی کی یہ کتاب خالص سائنس کی کتابیں نہیں ہیں کیوں کہ ان کا بیش تر حصہ ادب اور لسانیات سے تعلق رکھتا ہے مگر ہم ان کو ایسے لٹریچر میں شامل کر سکتے ہیں جس میں ادب اور سائنس کا امتزاج ہوتا ہے اور جو اس نادر خصوصیت کے باعث ہر دور میں ایک امتیازی شان کا حامل ہوتا ہے۔ اصمعی کی ان کتابوں کے لاطینی ترجمے یورپ میں ایک عرصے تک مروج رہے اور انہیں بڑے شوق سے پڑھا جاتا رہا۔ انیسویں صدی عیسوی میں جب عربی کتابوں کو اصل صورت میں چھاپنے کی تحریک مغرب میں شروع ہوئی تو اصمعی کی ان پانچوں کتابوں کو اصل عربی میں بڑے اہتمام کے ساتھ آسٹریا کے دارالسلطنت ویانا میں زیور طبع سے آراستہ کیا گیا۔

حمید عسکری


 

Post a Comment

0 Comments