Science

6/recent/ticker-posts

دنیا کے بڑے سائنس میلے کہاں کہاں ہوتے ہیں ؟

موجودہ نسل نے سائنس اور ٹیکنالوجی کی تیزرفتار تبدیلیوں کو دیکھا ہے۔ جو معاشرے اس تبدیلی کا ساتھ دے پائیں گے وہ آگے نکل جائیں گے اوردوسرے پیچھے رہ جائیں گے۔ اسی لیے دنیا بھر میں سائنس میلوں، کانفرنسوں اور مقابلوں کا اہتمام ہوتا ہے۔ سائنس دان، محقق، استاد، طالب علم و دیگر یہاں علم کی پیاس بجھانے اور نت نئی چیزیں دیکھنے آتے ہیں۔ آئیے ایسے چند بڑے میلوں کا جائزہ لیتے ہیں۔

عالمی سائنس میلہ: اس کا شمار دنیا کے سب سے بڑے سالانہ سائنس میلوں میں ہوتا ہے۔ اس میلے کی بنیاد کولمبیا یونیورسٹی میں ریاضی اور فزکس کے پروفیسر اور کئی سائنسی کتابوں کے مصنف برائن گرینی اور ایوارڈ یافتہ صحافی ایمی ایوارڈ نے رکھی۔ اس کا بنیادی مقصد سائنس کا فروغ ہے۔ میلہ امریکی شہر نیویارک میں منعقد ہوتا ہے اور ہفتہ بھر جاری رہتا ہے۔ اس کا آغاز 2008ء میں ہوا، اس وقت سے اب تک اس میں 29 لاکھ افراد شریک ہو چکے ہیں۔

شمالی کیرولینا سائنس میلہ: یونیورسٹی آف نارتھ کیرولینا کے زیراہتمام ہونے والا یہ میلہ ایک ہفتہ جاری رہتا ہے۔ اس کا آغاز 2010ء میں ہوا اور اب یہ دنیا کے سب سے بڑے سائنس میلوں میں شامل ہو چکا ہے۔ میلے کے دوران مختلف عجائب گھر، یونیورسٹیاں اور سائنس سے منسلک کاروباری ادارے کیرولینا کے مختلف حصوں میں سرگرمیاں منظم کرتے ہیں۔ پہلے میلے میں شرکا کی تعداد 85 ہزار سے زائد تھی جبکہ اپریل 2018ء میں ہونے والے میلے میں یہ تعداد 444,966 رہی اور اس میں ایونٹس کی تعداد 936 تھی۔

ایڈنبرگ بین الاقوامی سائنس میلہ: یہ میلہ 1989ء سے ماہ اپریل میں سکاٹ لینڈ کے شہر ایڈنبرگ میں منعقد ہو رہا ہے۔ دوسرے سائنس میلوں کی طرح اس میں سائنس کو چاہنے والے مختلف طبقات کے لوگ حصہ لیتے ہیں۔ یہ یورپ کا بہت بڑا میلہ ہے۔ اس میں مباحث اور نمائشیں ہوتی ہیں۔

عالمی سائنس میلہ گوتھنبرگ: یہ یورپ میں بہت مقبول ہے اور سویڈن میں ہونے والا سب سے بڑا سائنس میلہ ہے۔ اس کا آغاز اپریل 1997ء میں ہوا۔ اس میں اوسطاً ایک لاکھ افراد ہر سال شرکت کرتے ہیں جن میں ماہرین، محقق، استاد، طلبا اور عام لوگ سب شامل ہوتے ہیں۔ اس میلے کا بنیادی مقصد عوام اور طلبہ تک سائنسی معلومات پہنچانا ہے۔ ایک اور اہم مقصد تحقیق اور سائنس کے بارے میں آگاہی اور شوق پیدا کرنا ہے۔

چلٹن ہام سائنس میلہ: برطانیہ میں ہونے والا یہ ایک بڑا سائنس میلہ ہے۔ 2018ء میں یہ سائنس میلہ چھ سے 11 جون تک منعقد ہوا۔ میلے میں متعدد ایونٹس ہوتے ہیں جن میں متنازع سائنسی امور پر مباحثے بھی شامل ہیں۔ چلٹن ہام میلے کے عنوان سے موسیقی، جاز اور لٹریچر کا ایک میلہ 1945ء سے منعقد ہو رہا ہے۔ اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے سائنس میلے کو 2002 ء میں شروع کیا گیا۔

برٹش سائنس میلہ: یہ برطانیہ کے مختلف مقامات پر منعقد ہوتا ہے اور یورپ کا سب سے پرانا سائنس میلہ ہے۔ اس میں سیکڑوں سائنس دان، انجینئر اور ماہرین سماجیات متنوع موضوعات زیربحث لاتے ہیں۔

سائنس رینڈیزوئس: یہ کینیڈا کا سب سے بڑا سائنس میلہ ہے۔ اس کا آغاز 2008ء میں ہوا اور پھر یہ پھیل گیا۔ 2011ء میں اس نے قومی میلے کی شکل اختیار کر لی جس میں مختلف تحقیقاتی اداروں، یونیورسٹیوں، سائنس گروپوں اور عام لوگوں نے شرکت کی۔ یہ ایک روزہ میلہ عوام، والدین، بچوں اور نوجوانوں میں سائنس کے فروغ کے لیے منعقد کیا جاتا ہے۔

وائیڈ سائنس میلہ: کینیڈا میں اس سائنسی میلے کا آغاز 1962ء میں ہوا۔ ملک بھر سے آنے والے 25 ہزار سے زیادہ افراد مقابلوں میں حصہ لیتے ہیں۔ طلبا اپنے پروجیکٹس پیش کرتے ہیں اور ان کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ سائنس کے شعبے میں آگے بڑھنے کے خواہش مند طلبا کو یہ میلہ بہت پسند ہے کیونکہ انہیں یہاں اپنی صلاحیتوں کے مظاہرے کا موقع ملتا ہے اور وہ یہ بھی دیکھ پاتے ہیں کہ دوسرے سائنس کے میدان میں کیا کچھ کر رہے ہیں۔

یورپی یونین مقابلہ برائے نوجوان سائنس دان: اس سائنسی ایونٹ کا انعقاد یورپی یونین کے دو ادارے کرتے ہیں۔ اس کا مقصد نوجوانوں میں سائنس کا شوق پیدا کرنا اور انہیں سیکھنے کا موقع فراہم کرنا ہے۔ یہ کسی ایک ملک کے بجائے یورپی یونین کے مختلف ممالک میں ہوتا ہے۔ پہلا مقابلہ 1989ء میں بلجیئم میں ہوا۔

سائی فسٹ افریقہ: یہ جنوبی افریقہ کا قومی سائنس میلہ ہے۔ گزشتہ برس اس میں 62 ہزار افراد نے شمولیت اختیار کی۔ اس موقع پر 64 نمائشیں اور 701 ایونٹس ہوئے۔

ہانگ کانگ سائی فسٹ: اس سائنس میلے کا آغاز ہانگ کانگ میں 2014ء میں ہوا۔ اسے مختلف سائنسی ادارے اور تنظیمیں منظم کرتی ہیں تاکہ عوام میں سائنسی شعور اجاگر کیا جا سکے۔

کوالالمپور انجینئرنگ سائنس میلہ: یہ میلہ ملائیشیا میں ہوتا ہے اور اس میں سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔ اس میلے کے مقاصد میں طلبا اور عوام میں سائنس، ریاضی اور ٹیکنالوجی سے متعلق دلچسپی پیدا کرنا اور ان مضامین کی سماجی و معاشی اہمیت سے آگاہ کرنا شامل ہیں۔  

رضوان عطا

Post a Comment

0 Comments