Science

6/recent/ticker-posts

نظام شمسی کی گردش پر مفکرین میں اختلاف

زمین یا سورج کی گردش کے حوالے سے آج تک دو طرح کے نظریات پیش کیے جاتے رہے ہیں۔ اول نظریہ یہ تھا کہ زمین مرکز و محور ہے جس کے گرد سورج ، چاند، ستارے اور سیارے گھومتے ہیں۔ اس نظرئیے کو Geocentric کہا گیا۔آسمانی کتابوں اور یونانی مفکرین کے ہاں بھی پہلے پہلے اسی نظریے کی تائید نظر آتی ہے۔ جب کہ اس کے مقابلے میں بعد ازاں یہ نظریہ پیش کیا گیا کہ سورج مرکز و محور ہے، اور اس کے گرد زمین، چاند، و دیگر سیارے گھومتے ہیں۔ اس نظریے کو Heliocentric کہا گیا۔ دونوں نظریات پیش کرنے والوں کے پاس اپنے اپنے دلائل تھے۔ 

ابتدا میں چوں کہ سائنسی علم بھی مشاہدات کی بنیاد پر دیے جانے والے دلائل پر بنیاد کرتا تھا، اس لیے اختلاف کی گنجائش اس وقت تک رہی کہ جب تک ٹیلی سکوپ ایجا د نہیں ہو گئی اور آسمانوں کی دنیا انسانی آنکھ پر واضح نہیں ہو گئی۔ پھر ایک عرصہ اس بات پر جھگڑا ہوتا رہا کہ سورج ایک جگہ ساکن ہے اور ہمارا سارا نظام اس کے گرد گردش کرتا ہے مگر حالیہ تحقیقات نے ثابت کر دیا ہے کہ سورج خود بھی ایک اندازے کے مطابق کم وبیش 200-220 کلو میٹر فی سیکنڈ کی رفتارسے گردش کرتا ہے اور اس کے گرد گردش کرنے والا سارا نظام اس کے ساتھ ساتھ اسی اسپیڈ سے اپنے اپنے مداروں میں گردش کرتا ہے۔ سورج کو ایک چکر پورا کرنے میں 22 کروڑ 60 لاکھ سال لگ جاتے ہیں اور وہ اب تک 18 چکر پورے کر چکا ہے۔

سورج کی رفتار کے مقابلے میں سورج کے گرد زمین کی رفتار 30 کلومیٹر فی سیکنڈ ہے۔ عام طور پرنکولاس کوپرنیکس (1473-1543) کے بارے میں کہا جاتا رہا ہے کہ سب سے پہلے اس نے دریافت کیا کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے۔ یہ بات اس حد تک درست ہے کہ کوپرنیکس نے حسابی ماڈل کے ذریعے یہ ثابت کر دیا تھا کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے مگر اس بات کا اعلان اس نے بستر مرگ پر 1543 میں کیا۔ مگر ہر روز صبح طلوع ہوتے ہوئے سورج کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے والے اس بات پر یقین کرنے کے لیے تیار نہیں تھے کہ سورج ساکن ہے اور زمین گردش کر رہی ہے۔ سورج کے ساکن اور زمین کے گردش کرنے کی تائید افلاطون، ارسطو اور بعد میں پٹولمی نے بھی کی اور چودہ سو سال تک اس نظریے کو جھٹلانے کا کسی میں حوصلہ پیدا نہ ہوا۔ نکولاس کوپرنیکس نے 1532 ء تک کائنات کے بارے میں اپنا نظریہ قائم کر لیا تھا مگر وہ اسے عام لوگوں تک چرچ کے خوف کی وجہ سے لا نہ سکا۔ چرچ نے کتاب پر پابندی لگا دی یہاں تک کہ گلیلیو گلیلی (1564-1642) نے ٹیلی سکوپ کی مدد سے جوپیٹر کے گرد چار روشن چاند کی گردش کو 1610ء میں دریافت کیا۔ 

گلیلیو گلیلی نے دونوں نظریات کہ جو نکولاس کوپرنیکس اور پٹولمی نے پیش کیے تھے، کا باہم جائزہ اپنی کتاب میں لیا اوریہی قرار دیا کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے۔ اس کے نتیجے میں گلیلیو گلیلی کو باقی ماندہ عمر اپنے گھر میں ایک جیل کے قیدی کی طرح گزارنی پڑی۔ بعدازاں آئزک نیوٹن نے1688ء میں ایک ایسی دوربین ایجاد کی کہ جس کی مدد سے یہ بات واضح ہو گئی کہ سورج شمسی نظام کا محور و مرکز ہے اور زمین اور دیگر سیارے اس کے گرد گردش کرتے ہیں۔ نیکولاس کوپرنیکس نے کہا تھا کہ ’’سب کے درمیان میں سورج ہے، اور اس خوبصورت ٹیمپل کے روشن چراغ کی کوئی اور یا اس سے بہتر جگہ ہو ہی نہیں سکتی تھی، کہ یہاں سے یہ ایک ہی وقت میں سب کو روشن کر سکتا ہے‘‘۔ 

جدید سائنس نے کائنات کے بارے میں ہوش ربا انکشافات کیے ہیں۔ ایک بار پھر یہ ثابت ہو چکا ہے کہ شمسی نظام کی طرح کی کروڑوں اربوں اور کہکشائیں کائنات میں موجود ہیں۔ اور یہ کہ سورج بھی اپنی جگہ ساکن نہیں ہے بل کہ یہ کم و بیش 220 کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے دو طرح کی گردش کر رہا ہے۔ ایک گردش اپنے نظام کے سارے سیاروں کے ساتھ ایک مدار میں ہے ۔ یہ گردش ایک سیال مادے کی سی گردش ہے جب کہ دوسری گردش سورج کی اپنے محور کے گرد بھی ہے جو 24 دنوں میں ایک چکر پورا کرتا ہے۔ نظام شمسی کی گردش کو Rotational نہیں کہا جا سکتا کہ یہ صرف ایک محور یا مرکز کے گرد نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ایک اور بڑے محور کے گرد بھی گردش جاری رہتی ہے اس لیے اسے Vortex کہا جاتا ہے۔ 

گویا زمین و دیگر سیارے سورج کے گرد گھوم رہے ہیں، اپنے اپنے محوروں کے گرد گھوم رہے ہیں اور تیسری سطح پر ان کی گردش پورے نظام شمسی کے ساتھ سورج کی گردش کے ہمراہ بھی ہے۔ اس لحاظ سے یہ ایک پیچیدہ نظام بن جاتا ہے۔ مگر سائنسی حوالے سے اب یہ سارا نظام ثابت شدہ ہے۔ پھولوں، پھلوں، ڈی این اے اور کہکشائوں میں ایسی ہی Spiril گردش پائی جاتی ہے، اس حوالے سے یہ سمجھا جا رہا ہے کہ نظام شمسی میں یہ حرکت اس کی زندگی کی علامت بھی ہو سکتی ہے۔  

ڈاکٹر غافر شہزاد


 

Post a Comment

0 Comments