Science

6/recent/ticker-posts

ابنِ حزم کی حیات : ماہر الہٰیات، فلسفی، ماہر قانون اور شاعر

ابن حزم کا پورا نام ابو محمد علی بن احمد بن سعید بن حزم تھا۔ انھیں الاندلسی الظاہری کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ وہ ایک مشہور عالم و فاضل مؤرخ، ماہر الہٰیات، فلسفی، ماہر قانون اور شاعر تھا۔ وہ سات نومبر 994ء کو قرطبہ میں پیدا ہوا جو اب سپین میں ہے۔ اس کے دادا مسیحی تھے اور بعد میں اسلام قبول کر لیا تھا۔ وہ ظاہری مکتبۂ فکر کے پیشروؤں میں سے تھا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اس نے چار سو کتابیں تحریر کیں جن میں سے صرف 40 باقی بچ پائی ہیں۔ اس کے مخالفین نے اس کی بیش تر کتابوں کو جلا دیا تھا۔ اسے تقابلِ مذاہب کے موضوع کا بانی بھی تصور کیا جاتا ہے۔ اس نے الہٰیات اور قانون کے علاوہ طب پر بھی 10 سے زیادہ کتب لکھیں۔ اس کا والد احمد اور دادا دونوں بنوامیہ خلیفہ ہشام دوم کی عدالت میں اعلیٰ حیثیت رکھتے تھے۔ 

درباری فضا اور سرکاری عہدہ دار کے گھر پیدا ہونے سے ابنِ حزم کو اعلیٰ تعلیم و تربیت کا موقع ملا۔ یہ وہ دور تھا کہ ملک بغاوتوں، خانہ جنگیوں اور بربر حملوں کا شکار تھا۔ کئی حکمران آئے اور تخت سے اتار دیے گئے یا قتل ہو گئے۔ ابن حزم کو بھی ان ہنگاموں میں شریک ہونا پڑا۔ وہ وزیر بھی بنا، جلاوطن بھی ہوا اور اسے قید کی سزائیں بھی بھگتنی پڑیں۔ اس کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ انسانی فطرت کے بارے میں اس کے خیالات قنوطی شکل اختیار کر گئے۔ اس کے نزدیک انسان لالچی اور بدعنوان ہے۔ آخری دور میں اس نے سیاست سے کنارہ کشی کر لی اور علوم و فنون اور تصنیف و تالیف میں وقت صرف کرنے لگا۔ اسے سیرو سیاحت کا بھی شوق تھا۔ ابن حزم کی تحریروں میں جس امر کو وہ اہم سمجھتا ہے، بار بار بیان کرتا ہے۔

اس کا انداز بیان اپنے مخالفین کے بارے میں تند ہے اور اختلاف میں وہ کسی کے عہدے کا خیال بھی نہیں کرتا۔ تاریخ کے علاوہ ابن حزم کی حیثیت ایک مذہبی عالم کی بھی ہے بلکہ اس کی زیادہ تر علمی سرگرمیاں اسی میدان میں رہی ہیں۔ ابن حزم کو مناظروں کا بہت شوق تھا اور بعض اوقات وہ علما پر بھی الحاد کا الزام لگا دیتا۔ جس کی وجہ سے عالموں ایک بڑا گروہ اس کے سخت خلاف ہو گیا تھا۔ اس کی کتابیں برسرعام اشبیلیہ میں آگ کی نذر کی گئیں اور اسے گوشہ نشینی پر مجبور ہونا پڑا۔ اس کے جواب اس نے مخالفین کے بارے میں طنزیہ اور ہجویانہ نظمیں لکھیں۔ ابن حزم کے متعدد رسالے و کتب دنیا کے مختلف کتب خانوں میں محفوظ ہیں اور ان کے ترجمے مختلف زبانوں میں شائع ہو چکے ہیں۔ اس کا انتقال 1064ء میں ہوا۔

مہران خان


 

Post a Comment

0 Comments