جلال الدین اکبر بادشاہ کے دربار میں بڑے بڑے ماہرین فن موجود تھے، لیکن ابو الفضل کی انشا پردازی اور فصاحت اپنی مثال نہ رکھتی تھی۔ اکبر اپنے اس وزیر دربار سے بے حد محبت کرتا تھا۔ ابو الفضل اس زمانے کے ایک مشہور عالم و معلم شیخ مبارک ناگوری کے ہاں 1551ء میں پیدا ہوا۔ اُس نے اپنے بھائی فیضی کے ساتھ اپنے باپ ہی سے تمام علوم کی تحصیل کی اور جوان ہو کر اپنے باپ کے تمام حریفوں کو شکست دے کر دربار تک رسائی حاصل کی۔ ان دونوں بھائیوں نے بہت جلد اکبر کے مزاج میں دخل حاصل کر لیا۔ ابو الفضل فارسی زبان کا ممتاز انشا پرداز اور عہد اکبری کا سب سے بڑا مورخ تھا۔ اکبر نامہ اس کی ایک لازوال تاریخ ہے، جس سے مؤرخین کو اکبر کے دور کی تمام تفصیلات صحیح صحیح معلوم ہوتی ہیں۔
اس کتاب کا تیسرا حصہ آئین اکبری ہے، جس میں ابو الفضل نے اکبر کی سلطنت کے آئین، اس کے مذہب اور ملک کے نظم و نسق کا پورا پورا حال لکھا ہے اور درباری و عوامی زندگی کے تمام پہلوؤں کو روشن کیا ہے۔ ابو الفضل کے مکتوبات کا مجموعہ تین حصوں میں آج بھی مشرقی زبانوں کے امتحانات میں نصاب کا مقام رکھتا ہے۔ ابو الفضل اعلیٰ درجے کے شعرا و ادبا کا بے حد قدر دان تھا اور دربار میں سفارش کر کے ان کو عطیات و وظائف دلایا کرتا تھا چونکہ دربار اور محل کے تمام معاملات میں ابو الفضل بے حد دخیل تھا اور اکبر کو اس کی دانائی و خیر خواہی پر بڑا اعتماد تھا، اس لیے اکبر کا ولی عہد جہانگیر اسے پسند نہ کرتا تھا بلکہ یہاں تک کہا جاتا ہے کہ ابو الفضل کا قتل جہانگیر ہی کے اشارے سے ہوا تھا۔ ابو الفضل 1602ء میں دکن سے واپسی پر ایک سپاہی کے ہاتھ سے مارا گیا۔
(سیموئل نسنسن اور ولیم اے ڈی وٹ کی تصنیف سے مقتبس، ترجمہ : مولانا عبد المجید سالک ).
0 Comments