Science

6/recent/ticker-posts

مشہور مترجم حنین بن اسحاق : جنکے ترجموں کو اسلامی دور میں بنیادی حیثیت حاصل رہی

عباسی خلافت میں بیت الحکمت میں جو فضلا، غیرملکی کتابوں کو عربی میں ترجمہ کرنے پر مامور تھے ان میں سے مشہور مترجم حنین بن اسحاق تھے۔ وہ اگرچہ بیت الحکمت میں آخر میں داخل ہوئے، جب ان کی عمر 25 سال سے متجاوز نہ تھی مگر اپنے علم و فضل اور لسانی مہارت کے باعث وہ دوسرے مترجموں سے سبقت لے گئے اور تھوڑے ہی عرصے میں دارالترجمہ کے دیگر کہن سال اراکین ان کی لیاقت کا دم بھرنے لگے۔ انہوں نے یونانی عالموں کی بہت سی معیاری کتابوں کو عربی کے قالب میں ڈھالا اور چونکہ بعد کے مسلمانوں کی علمی ترقی کا آغاز انہیں کتابوں سے ہوا، اس لیے حنین بن اسحاق کے ترجموں کو اسلامی دور کے تمام علمی کارناموں میں ایک بنیادی حیثیت حاصل تھی۔

حنین بن اسحاق عراق کے ایک شہر حیرہ کے رہنے والے تھے جہاں ان کا خاندان بنو عباد کے نام سے موسوم تھا۔ اسی نسبت سے وہ حنین بن اسحاق العبادی بھی کہلاتے ہیں۔ اہل مغرب میں وہ ’’جونی ٹینس‘‘ (Joannitius) کے نام سے بھی مشہور ہیں۔ اس کا سنہ ولادت 809ء کے لگ بھگ ہے۔ ابھی ان کا لڑکپن ہی تھا کہ وہ ملازمت کی تلاش میں ایک مشہور طبیب یوحنا بن ماسویہ کے شفاخانے میں دوا ساز بن گئے۔ یوحنا بن ماسویہ مطب کرنے کے علاوہ فارغ اوقات میں طلبہ کو طب کی تعلیم بھی دیتے تھے۔ چناں چہ جب یہ طلبہ ان کا لیکچر سننے آتے تو حنین بن اسحاق بھی شریک ہو جاتے۔ یوحنا دل سے اس بات کو پسند نہیں کرتے تھے کہ حنین اس درس میں شامل ہو کر طب کی تعلیم حاصل کرے۔

اس کی وجہ یہ تھی کہ شہر کے تمام طبیب، جن میں وہ بھی شامل تھے، طب کو اپنے خاندان کی وراثت سمجھتے تھے اور انہیں گوارا نہ تھا کہ دوسرے شہر کے لوگ ان سے طب کی تعلیم حاصل کر کے ان کے مدمقابل آ جائیں۔ اس لیے چند روز تک وہ خاموش رہے مگر ایک دن جب حنین نے درس کے دوران میں ان سے کسی طبی مسئلے پر ایک سوال پوچھا تو وہ برانگیختہ ہو گئے اور یہ کہہ کر حنین کو جماعت سے نکال دیا کہ حیرہ کے رہنے والے کی طب سے کیا نسبت ہو سکتی ہے۔ اس اخراج نے حنین کے شوق تعلیم کے لیے تازیانے کا کام کیا، چنانچہ انہوں نے پہلے یونان اور پھر مصر کا سفر اختیار کیا جہاں انہوں نے یونانی اور سریانی زبانیں سیکھیں اور ان زبانوں میں قدما کی تصانیف کو پڑھا۔

عربی اور فارسی تو ان کی اپنی زبانیں تھیں۔ اس طرح وہ اپنے زمانے کی چار مشہور زبانوں یعنی عربی، فارسی، یونانی اور سریانی کے ماہر بن گئے۔ تحصیل علم کے بعد وہ بغداد آئے اور بیت الحکمت کے شعبہ ترجمہ سے منسلک ہوئے جہاں ان کے سابق استاد یوحنا بن ماسویہ بھی ایک مترجم کی حیثیت سے مامور تھے۔ وہ بہت جلد حنین بن اسحاق کے علم و فضل کے معترف ہو گئے اور فن ترجمہ میں ان کو استاد سمجھنے لگے۔ حنین بن اسحاق بیت الحکمت میں ایک عام مترجم کی حیثیت سے شامل ہوئے تھے، لیکن مامون الرشید کی قدر شناسی نے انہیں بہت جلد ترجمے کے شعبے کا اعلیٰ افسر بنا دیا۔

اس طرح قدیم یونانی حکما کی تصانیف کو عربی میں منتقل کرنے کا پورا منصوبہ حنین بن اسحاق کی تحویل میں آ گیا جنہوں نے علمی خدمات کو نہایت شان دار طریقے سے سرانجام دیا۔ وہ نہ صرف ان کتابوں پر انحصار کرتے تھے جو مامون کے حکم سے بیت الحکمت کے کتب خانے میں فراہم کی گئی تھیں بلکہ جہاں کہیں انہیں کسی قدیم کتاب کا سراغ ملتا، وہ خود سفر کی صعوبتیں برداشت کر کے اور زرِ کثیر صرف کر کے اس کتاب کو حاصل کرتے۔ تالیف اور ترجمے کے فن میں انہیں غیر معمولی بصیرت حاصل تھی۔ اس ضمن میں سب سے دشوار امر یونانی اصطلاحوں کے مقابلے میں عربی اصطلاحیں وضع کرنا تھا۔

اس مقصد کے لیے حنین بن اسحاق نے وہ تین زریں اصول وضع کیے تھے جو بعد ازاں اصطلاحات کے بارے میں برتے گئے اور آج بھی مستعمل ہیں: اول) یونانی اصطلاحات کے مقابل بیش تر عربی کی اصطلاحیں وضع کی جائیں۔ دوم) بعض یونانی اصطلاحوں میں ایسا لفظی تصرف کر لیا جائے جس سے وہ عربی اصطلاحیں معلوم ہونے لگیں۔ دوسرے لفظوں میں انہیں معرب بنا لیا جائے۔ سوم) بعض یونانی اصطلاحوں کو بجنسہٖ عربی زبان میں لے لیا جائے۔ مترجم کے علاوہ وہ طبیب، مفکر اور سائنس دان بھی تھے۔ ان کا انتقال 873 ء میں ہوا۔

حمید عسکری


Post a Comment

0 Comments