فارابی ترکی میں 870ء میں دریائے حیبوں کے ساحلی علاقے پر واقع ترکستان کے ضلع فاراب کے مقام واسح میں پیدا ہوا اور اسی نسبت سے فارابی کہلایا۔ ان کا پورا نام محمد بن ترخان اور کنیت ابو نصر تھی۔ ابتدائی تعلیم فاراب میں حاصل کرنے کے بعد اوائل عمر میں حصول تعلیم کے لیے بغداد آیا ۔عربی زبان سیکھنے کے بعد یونانی مفکرین کے فلسفہ کے عربی تراجم سے استفادہ کیا۔ اسلامی ریاست میں فرقہ وارانہ تشدد کی بناء پر دمشق آیا۔ ہمدانیوں کی فتح کے بعد 946ء میں دمشق میں مستقل سکونت اختیار کی اور سیف الدولہ کے دربار سے وابستہ ہوا۔ دمشق میں اس نے عیسائی اساتذہ ابوبشر متی بن یونس اور یومنا بن حیلان سے علم منطق حاصل کیا۔ سائنس، فلسفہ، طبعیات، منطق، کیمیا، سحر اور ریاضی کے علوم کے علاوہ موسیقی کا علم سیکھا۔ علمی موسیقی پر ایک مستند کتاب تحریر کی اور ایک آلہ ’’رباب‘‘ بھی ایجاد کیا۔ وہ ابوبکر الشبلی اور منصور الحاج کا ہم عصر تھا۔ اس کے فلسفہ میں افلاطون کا رنگ نمایاں ہے۔ فارابی نے ارسطو کی تصنیفات کی ایسی بسیط شرح لکھی کہ کئی صدیوں تک سند کے طور پر پیش کی جاتی رہی۔
وہ علم الطب کا ماہر تھا۔ ریاضی میں بیکن نے اس کی شاگردی کو تسلیم کیا۔ اس نے اپنی تصنیف میں ’’احصاء العلوم‘‘ میں متداوّل سائنسوں پر زبردست تبصرہ کیا۔ اس کتاب کے پانچ حصے ہیں جن میں علم کے مختلف شعبوں زبان، منطق، ریاضیات، طبعی سائنس اور سیاسی و معاشرتی اقتصاد پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔ اس کی ایک اور تصنیف ارسطو کی ارو گینن (Organaon) کی شرح ہے، جس سے استفادہ کرتے ہوئے روجر بیکن (Roger Bacon) اور البرٹس میگنس (Albertus Magnus) نے اپنے نظریات قائم کئے۔ اس کی الجمع بین راس الحکمین، افلاطون و ارسطو طالیس، السیرہ الفاضلہ اور سیاسیات پر کتاب ’’السیاست المدینہ‘‘ جو عظیم ترکتاب ’’مبادی الموجودات‘‘ کا ایک حصہ ہے ،سب اس کی ذہانت کی غماز ہیں۔ فارابی کی مشہور تصانیف میں الموسیقی الکبیر، کتاب الاخلاق، السماء و العالم، عقل، نفس، سیاست المدینہ، آراء المدینہ الفاضلہ،جوامع السیاستہ، اجتماعات المدینہ اور تحصیل السعادۃ شامل ہیں۔ کتاب الاخلا اور اسماء و العالم ارسطو کی تصانیف پر تنقید ہے جبکہ سیاست المدینہ افلاطون کی کتاب نوامیس کی تلخیص ہے۔
سیاست پر اس کی دو تصانیف سیاست المدینہ اور آراء اہل المدینہ الفاضلہ بڑا نمایاں مقام رکھتی ہیں۔ آراء اہل المدینہ الفاضلہ جس میں وہ معیاری مملکت کو مدینہ الفاضلہ کا نام دیتا ہے حقیقت میں افلاطون کی تصنیف ’’الجمہوریہ‘‘ کا چربہ ہے۔ اس کتاب میں اس نے معیاری شہر کی ضرورت، نظم و نسق، اقتدار اعلیٰ، اشتراکیت و انفرادیت اور انسانی اجتماعات کا ذکر کرتے ہوئے ایک طرف شریعت اور فلسفہ اور دوسری جانب افلاطون اور ارسطو کا ذکر کرتے ہوئے ایک طرف شریعت اور فلسفہ اور دوسری جانب افلاطون اور ارسطو کے نظریات میں مطابقت پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس نے جہاں افلاطون سے اختلاف کیا ہے ،وہاں ارسطو کا نظریہ پیش کیا ہے۔ سیاست المدینہ میں اس نے انسان اور حیوان کے باہمی فرق، انسانی تعاون، معاری شہر، رئیس اوّل کی اہمیت و صلاحیت اور مختلف اقسام کی حکومتوں پر بحث کی ہے۔ فارابی کے نزدیک فلسفہ کا مقصد خالق کا شعور و ادراک ہے اور فلسفہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے اعمال میں زیادہ سے زیادہ خدا کی طرح عمل کرے، خود کو بہتر بنائے، اپنے کنبہ کی اصلاح کرے اور ریاست کی اصلاح کی طرف توجہ دے۔
انسان عقل الفعال کے ذریعے علم سیکھتا ہے اور اچھے برے کی تمیز کرتا ہے۔ انسانوں اور حیوانوں میں فرق کی بنیاد انسان کی ترقی اور اس کا اشرف المخلوقات ہونا سب اسی عقل الفعال کے بغیر ناکارہ ہے۔ قوت نزوعیہ کے ذریعے انسان میں محبت، نفرت اور رنج و خوشی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں اور قوت ناطقہ انسانی طبیعت کو جبلت پر قابو پانے کے طریقے سے روشناس کراتی ہے۔ اس کے خیال میں اجتماع کی دو اقسام ہیں:
(1. اجتماع تام
(2. اجتماع ناقص و نا مکمل فارابی کے نزدیک کرہ ارض پر رہنے والے تمام لوگوں کا اجتماع سب سے بڑا اجتماع ہے، لیکن اس اجتماع عظیم کا بین الاقوامی اتحاد، جغرافیائی آب و ہوا، انسانی کردار، رسم و رواج اور زبان کے اختلافات کے باعث ممکن نہیں ۔ شہر ملت کی اکائی اور اجتماع تام ہے اور ان کے درمیان اسی حد تک اتحاد ممکن ہے۔ محلے اور سڑکیں شہر کا اک حصہ یا ٹکڑا ہونے کے باعث اجتماع ناقص یا نا مکمل اجتماع ہیں۔
نا مکمل اجتماع کے بغیر مکمل اجتماع کا مقصد ممکن نہیں اور اجتماع مکمل کے لیے اجتماع نا مکمل کا ہونا ضروری ہے۔ فارابی کے نزدیک مملکت انسانوں کے درمیان معاہدہ عمرانی ہے، جو باہمی تنازعات اور حصول انصاف کی خاطر وجود میں آیا۔ یہ معاہدہ کاروبار مملکت کی بنیاد ہے۔ انسانی جنگجویانہ فطرت نے اجتماع کو جنم دیا اور انسان نے اپنی مرضی سے اپنے حقوق کا ایک حصہ مرکزی قوت کے سپرد کیا۔ اس کا یہ نظریہ مملکت قریباً سات سال بعد انگلستان اور فرانس میں جمہوری نظام کو لانے کا سبب بنا۔ فارابی اپنی معیاری مملکت کو مدیسہ الفاضلہ اور اس کے سربراہ کو رئیس اوّل کا نام دیتا ہے۔ اس کے خیال میں خدا نے دنیا کے نظام کو مستحکم رکھنے کے لیے ہرشخص کو اس کی صلاحیت کے مطابق فرائض تفویض کر رکھے ہیں۔ ریاست کا اعلیٰ شہری وہ ہے، جو حکمران کے ماتحت شہری زندگی گزارتا ہے۔ رئیس اوّل انسانی جسم میں قالب سے متشابہ ہے اور وہ مملکت کے مختلف طبقوں میں حقوق و فرائض کا تعین کرتا ہے، جو عہدیدار رئیس کے جتنا قریب ہو گا ،اتنا ہی اہمیت کا حامل ہو گا۔
اس کے خیال میں مثالی حکمران رسول ہے، جو منبع قانون ہوتا ہے۔ صرف اس کے تحت ریاستیں معیاری ہو سکتی ہیں۔ وہ مقتدر اعلیٰ کے فرائض و اوصاف کے باب میں کہتا ہے کہ انسان بلحاظ عقل ایک جیسے نہیں ہوتے مقتدر اعلیٰ میں قوت استبداد کے ساتھ ساتھ قوت تبلیغ بھی ہونی چاہیے۔ اس کے ماتحت ہر شعبہ کا الگ قائد ہونا چاہیے اور مملکت کے تمام شعبوں کے قائدین میں سے جو سب سے زیادہ طاقتور ہو گا۔ قائد اوّل ہو گا اور اس کے ماتحت قائد دوم و قائد سوم ہوں گے، جو بالترتیب ادنیٰ قائدین کی راہنمائی کریں گے۔ مقتدر اعلیٰ بے عیب، ذکی و عاقل، معاملہ فہم، عادل و منصف، دولت مند و غنی اور لہو و لعب اور خواہشات نفسانی سے متنفر ہونا چاہیے۔ اس کا حافظہ قویٰ اور اس میں علم کی محبت پیدا کرنے کی اہمیت موجود ہونی چاہیے۔ اصولی طور پر شخصی حکومت ہونی چاہیے ،لیکن ناگزیر حالات میں اگر یہ تمام صفات ایک شخص میں ممکن نہیں، تو ان میں اکثر خوبیوں کے مالک کو حکمران تسلیم کر لینا چاہیے۔
اگر ایسا بھی ممکن نہیں، تو ان میں اکثر خوبیوں کے مالک کو حکمران تسلیم کر لینا چاہیے۔ اگر ایسا بھی ممکن نہ ہو، تو ان صفات کے مالک شخص کے زیر تربیت پانچ چھ افراد جن میں فلسفی اور حکیم موجود ہوں چنا جا سکتا ہے،جو جمہوریت کی شکل بنتی ہے۔ فارابی نے معیاری مملکت کے مقابلے میں غیر معیاری مملکت ’’مدیسہ الجاہلیہ‘‘ کا تصور بھی پیش کیا۔ اس کے خیال میں غیر معیاری مملکت جسے وہ مدیسہ التغلب کا نام دیتا ہے کے وجود میں آنے کی درج ذیل وجوہات ہوتی ہیں:
(1. کمزوروں کو طاقت کے ذریعے مغلوب کر کے حکومت قائم کی جاتی ہے، جو ایک فطری آمریت اور عین انصاف ہے۔ مفتوحہ پر فاتح کی اطاعت ضروری ہوتی ہے جبکہ فاتح پر خون بہانا، اچانک حملہ کرنا یا کمزوروں پر ظلم و ستم روا رکھنا درست نہیں ۔
(2. ایک مضبوط اور متحد خاندان یا کنبہ اپنی طاقت کے بل بوتے پر ریاست کے قیام کا سبب بنتا ہے۔
(3. حکمران کی جانب سے افراد کی باقاعدہ تنظیم کے ذریعہ مملکت قائم ہوتی ہے۔
(4. ایک زبان بولنے والے یا ایک ہی رسم و رواج کے پابند گروہ جب متحد ہو جاتے ہیں، تو مملکت کا قیام عمل میں آتا ہے۔
(5. جب ایک خطہ یا علاقہ کے لوگ باہم اتحاد کرتے ہیں، تو ریاست وجود میں آتی ہے۔
اس کے نزدیک غیر معیاری مملکت کی چار اقسام ہیں:
1۔ ٹمو کریسی
2۔ اشرافیہ
3۔ جمہوری
4۔ جبر و استعدادیت۔ ان چاروں اقسام میں ٹموکریسی بہتر نظام حکومت ہے۔
جمہوریت میں شہریوں کو آزادی حاصل ہوتی ہے جبکہ ظلم و استدادیت میں شہریوں کو غلام بنا کر رکھا جاتا ہے۔ ان کے علاوہ کئی اور اقسام کی ریاستوں کا ذکر اس طرح کرتا ہے۔
1۔ بد اعمال ریاست۔ اس ریاست کے باشندوں کے عمل غیر معیاری ہوتے ہیں۔
2۔ وقت کے ساتھ بدلنے والی مملکت … یہ ریاست حالات کے مطابق بدلتی رہتی ہے۔
3۔ ظلم کی ریاست… اس ریاست کے شہری بدعنوان بادشاہ کو ہر صورت میں خوش رکھتے ہیں۔
4۔ بنیادی ضروریات پوری کرنے والی ریاست… اس ریاست کے باشندے صرف بنیادی ضروریات کے حصول کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔
5۔ خراب ریاست… اس ریاست کے شہری دولت کے پجاری ہوتے ہیں۔
6۔ قابل ِنفرت ریاست… اس ریاست کے شاہ سیرو شکار کے شوقین ہوتے ہیں۔ فارابی کے نزدیک نو آبادیات کا قیام بیرونی حملہ اور اقتصادی و معاشی بد حالی کے سبب عمل میں آتا ہے۔ نو آبادیات کو اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنے پرانے دستور کو بحال رکھیں یا اس میں اپنی منشاء کے مطابق ردوبدل کریں وہ مرکز کے ساتھ اپنا رابطہ برقرار رکھیں یا آزاد رہیں۔ اس کے نزدیک اشتراکیت نا قابلِ عمل نظریہ ہے اور وہ ایک حد تک ذاتی ملکیت کو جائز قرار دیتا ہے۔ مشرق کے اس عظیم سیاسی مفکر نے 980ء میں 80 سال کی عمر میں دمشق میں اجل کول بیک کہا اور اس کے ساتھ ہی سیاسیات کا ایک درخشندہ باب اپنے اختتام کو پہنچ گیا۔
(ڈاکٹر شاہدمختار کی تصنیف ’’ دنیا کے عظیم سیاسی مفکرین عالم‘‘ سے مقتبس)
0 Comments