ڈاکٹر صاحب کی زندگی کے آخری چند برس بظاہر ایک خاموشی، بدگمانی، فرسٹریشن، مایوسی اور ناقدری کے احساس کے آئینہ دار ہیں اور یہ احساس کچھ ایساغلط، بے جا یا فرضی بھی نہیں لیکن جو لوگ اُن کے قریب یا اُن سے رابطے میں رہے ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود وہ کبھی ربِ کریم کی رحمت سے مایوس اور اُس کے بندوں کی محبت سے محروم نہیں ہوئے۔ دراصل اُن کا کام ہی اتنا بڑا، غیر معمولی اور شاندار تھا کہ اُس نے دنیا بھر کے حاکم سیاسی طبقوں اور اپنے تکبر میں ڈوبے ہوئے ہمسایہ ملک کے جارحانہ عزائم کو ایک ایسا شدید اور غیر متوقع جھٹکا دیا کہ تب سے اب تک ہر دو قوتیں غصے اور انتقام کی آگ میں جل تو رہی ہیں لیکن پاکستان کو حربی قوت کے زور پر اپنے قابو یا رعب میں رکھنا اب اُن کے لیے ممکن نہیں رہا، سو اَب سرمایہ بنیاد معیشتیں جہاں ہمیں معاشی طور پر کمزور اور اپنا تابعدار رکھنے کی کوشش کر رہی ہیں وہاں بھارت یہ کام سازش، بد امنی اور تخریبی کارروائیوں کے ذریعے کرنے کی کوشش کررہا ہے۔
ڈاکٹر قدیر خان بھی شائد بہت سے دیگر ہنرمند اور اعلیٰ صلاحیتوں کے حامل پاکستانی تارکینِ وطن کی طرح ایک بظاہر کامیاب آسودہ اورمتمول زندگی گزار کر وہیں کہیں کسی مغربی سرزمین میں آسودہ خاک ہو جاتے مگر دو باتوں (و یقینا تقدیر کا مدعا بھی تھیں) نے ایسا نہیں ہونے دیا، ایک تو اُن کی وہ طبیعت، افتاد و طبع اور اپنے اختیار کردہ ملک پاکستان اس کی حفاظت اور ترقی سے محبت تھی اور دوسری 1974 میں بھارت کی طرف سے کیے گئے وہ ایٹمی دھماکے جن کے متوقع اثرات کی سنگینی نے ہالینڈ کی کسی سائنس لیبارٹری میں کام کرتی ہوئی ایک خوبصورت اور محبِ وطن رُوح کو بے چین کر دیا جسے دنیا ایک عام سے سائنس کے طالب علم کے طور پر جانتی تھی۔ ہم سب جانتے ہیں کہ کس طرح انھوں نے بنیادی طور پر ایک نیوکلیئر سائنس دان نہ ہونے کے باوجود بھی اُس وقت کے پاکستانی وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو مرحوم سے خود رابطہ کیا اور انھیں بتایا کہ ہم جوابی طور پر اور اپنی مدافعت اور حفاظت کے لیے کس طرح سے ایسی جوہری قابلیت حاصل کرسکتے ہیں۔
اب یہاں داد بھٹو مرحوم کے لیے بھی بنتی ہے کہ انھوں نے نہ صرف اس معاملے کی سنگینی، جواب کی ضرورت اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی صلاحیت اور خلوص کو سمجھا بلکہ عملی طور پر اس مشن کے آغاز کے لیے نہ صرف ڈاکٹر صاحب کو وہاں سے بلوایا بلکہ انھیں اور ان کی ٹیم کو ایسے وسائل بھی مستقل طور پر مہیا کیے جن کی فراہمی اُن حالات میں ناممکن حد تک مشکل تھی اور پھر ڈاکٹر صاحب ہی کے بیان کے مطابق جنرل ضیاء الحق اور غلام اسحق خان نے بھی نہ صرف اس پالیسی کو جاری رکھا بلکہ ہر طرح کے دباؤ کو سہتے ہوئے پاکستان اٹامک انرجی کمیشن اور ڈاکٹر اے کیو خان لیبارٹری کے کام کو اوّلین ترجیح دی۔ اب 28 مئی 1998 کے جوابی دھماکوں کے فیصلے اور عمل کے درمیان کیا کچھ ہُوا اس کی تفصیل میں جائے بغیر اور بھارت کے فطری ردعمل کی کیفیات اور تفصیلات میں اُلجھے بغیر ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اس کے فوراً بعد ایک طرف تو ڈاکٹر صاحب کی طرف سے دھماکے کے کریڈٹ کے ضمن میں سیاستدانوں کے رویے پر ناراضی کا اظہار سامنے آیا اور دوسری طرف بڑی عالمی قوتوں کی طرف سے حیرت اور بے یقینی کے فوری تاثر کے بعد اس کی مخالفت میں بیانات آنے شروع ہو گئے۔
9/11 کے پس منظر اور ڈاکٹر صاحب کی ریٹائرمنٹ کے بعد ان دونوں باتوں نے ایک نیا اور بے حد تکلیف دہ رُخ اختیار کر لیا جس کے نتیجے میں جنرل مشرف کے زمانے میں ڈاکٹر صاحب کو امریکا کے بے حد اصرار کے باوجود اس کے حوالے تو نہیں کیا گیا مگر طرح طرح کے الزامات، معافی ناموں اور نقل و حرکت پر پابندیوں کی وجہ سے انھیں کئی برس ایک طرح کی نظر بندی میں رہنا پڑا جو یقیناً ایک ایسے شخص کے لیے جو محسنِ پاکستان بھی کہلاتا ہو اور جس نے اپنی ساری زندگی اپنی قوم کو محفوظ اور باوقار رکھنے میں صَر ف کر دی ہو ایک بہت تکلیف دہ صورتِ حال تھی۔ ذاتی طور پر مجھے اُن سے ملنے اور اُن سے بات چیت کرنے کے مواقعے دونوں طرح کے حالات میں حاصل رہے ہیں کہ میری اُن سے پہلی بالمشافہ ملاقات ایٹمی دھماکے سے کچھ عرصہ قبل ہوئی تھی اور پھر یہ سلسلہ وقفوں سے ہی سہی مگر کبھی منقطع نہیں ہوا کہ وہ سائنس دان تو بڑے تھے ہی شعر و ادب سے بھی اُن کی واقفیت نہ صرف بہت گہری اور عمدہ تھی بلکہ عام میل جول میں وہ بے حد دلچسپ، خوش دل، خوش مذاق اور Down to Earth انسان تھے اور پھر آخر ی عمر میں انھوں نے کالم نگاری کے ذریعے اپنے مطالعے ، مشاہدے ، تجزیے ، ادبی ذوق اور اپنی فہم کا جو مرقعّ ہمارے سامنے پیش کیا وہ بھی اپنی مثال آپ ہے وہ بہت سادہ، سچے، مخلص اور قدرے جذباتی مزاج کے حامل تھے۔
اب جہاں تک اُن کی سادگی، سچائی اور خلوص کا تعلق ہے وہ تو بیشتر سائنس دانوں کی مشترکہ خوبی رہی ہے مگر زندگی، فنونِ لطیفہ سے محبت اور جذباتیت وہ اوصاف ہیں جو یقیناً اپنی برادری سے انھیں ممیز اور ممتاز کرتے ہیں بلاشبہ وہ کچھ عمائدینِ سلطنت اور اُن کے حواریوں سے نالاں تھے مگر اُن میں سے بھی کسی کی نیکی توجہ یا اچھے کام کی تحسین میں وہ بخل سے کام نہیں لیتے تھے انھیں احسان فراموشی سے چِڑ تھی چنانچہ اس حوالے سے وہ بعض اوقات بہت سخت باتیں بھی کر جاتے تھے لیکن جہاں تک پاکستانی عوام اور عام انسانی ضمیر کا تعلق ہے۔ اُس کے لیے میں نے کبھی اُن کے منہ سے کوئی شکایتی لفظ نہیں سُنا۔ چند برس قبل ایک محفل میں اُن کے کچھ احباب نے بتایا کہ وہ آج کل ایک عوامی اسپتال کے قیام کے لیے بھی بہت محنت اور سنجیدگی سے کام کر رہے ہیں کہ خیر کے کاموں کے لیے وہ ہمہ وقت مستعد رہتے ہیں۔ کچھ عرصہ بعد ایک ملاقات کے دوران انھوں نے مجھ سے اپنے اس اسپتال کے لیے اُسی طرح کا ایک ترانہ نما گیت لکھنے کی فرمائش کی جسے میں اس سے قبل ’’الخدمت ‘‘ اور ’’اخوت‘‘ کے لیے لکھ چکا تھا مجھے خوشی ہے کہ مجھے اس کی تعمیل کا موقع ملا اور مزید خوشی اس بات کی ہے کہ انھوں نے اسے پسند بھی کیا۔
اُن کی نماز جنازہ اور تدفین کے مناظر اور خبریں دیکھنے اور حکومتِ وقت کی طرف سے اُنہیں قومی اعزاز اور احترام کے ساتھ دفنانے کے اعلانات سننے اور ان پر عمل کی مختلف صورتیں دیکھنے اور عوام کا جوش و خروش اور ہر طرح کے میڈیا پر اُن کے لیے دعاؤں اور کلماتِ خیر کا ہجوم دیکھنے کے بعد مجھے یقین ہے کہ اُن کی رُوح پر سے اُس ناقدری اور احسان فراموشی کے گِلوں کا بوجھ اُتر گیا ہو گا جسے انھیں اپنی عمر کے آخری برسوں میں اُٹھانا پڑا اور بلاشبہ عوام کی یہ محبت اُن تمام سرکاری اعزازت پر بھاری ہے جو انھیں بار بار ملے کہ یہ محبت مستقل اور پائیدار ہونے کے ساتھ ساتھ بے حد گہری اور مضبوط بھی ہے اور مجھ سمیت وہ لوگ بہت خوش قسمت ہیں جنھیں اُن سے ملنے، باتیں کرنے اور سیکھنے کا موقع ملا ہے۔
0 Comments