جابر ابن حیان ایسا مسلمان کیمیا دان رہا ہے جس کی محنت اور کوشش سے علم کیمیا کو بڑی ترقی ملی اور یہ علم موجودہ حالت پر آیا۔ سچ تو یہ ہے کہ جابر ابن حیان سب سے پہلا کیمیا دان تھا۔ جنھیں دنیا ''بابائے کیمیا‘‘ کے نام سے بھی جانتی ہے۔ وہ ایک عظیم مسلمان کیمیا دان ہونے کے ساتھ ساتھ ریاضی دان، حکیم، فلسفی ، ماہر نفسیات اور ماہر فلکیات بھی تھے۔ اہل مغرب میں جابر بن حیان ''Geber‘‘ کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ ان کا تعلق عرب کے ایک قبیلے ''بنو ازد‘‘ سے تھا لیکن ان کا خاندان کوفے آ کر آباد ہو گیا تھا۔ جابر 722ء میں خراسان میں پیدا ہوئے۔ بچپن میں ہی باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ والدہ انہیں لے کر واپس عرب چلی گئیں اور اپنے قبیلے کے لوگوں میں رہنے لگیں۔ انھوں نے کوفہ میں امام جعفر صادقؓ کے مدرسے میں تعلیم حاصل کی جہاں مذہبی تعلیم کے ساتھ ساتھ فلسفہ حکمت، منطق اور کیمیا جیسے مضامین کی تعلیم بھی دی جاتی تھی۔ یہ ان ہی کی صحبت کا اثر تھا کہ جابر اگرچہ بعد میں سائنسدان بنے لیکن ان پر مذہب کا رنگ ہمیشہ غالب رہا۔
اب تو علم کیمیا بہت ترقی کر چکا ہے اور اس کی بہت سی شاخیں ہیں لیکن جابر کے زمانے میں اس علم کا مطلب یہ تھا کہ معمولی دھاتوں کو سونے میں تبدیل کر دیا جائے۔ کسی کو اس میں کامیابی تو حاصل نہیں ہوئی لیکن کوشش سب کرتے تھے۔ جابر نے اپنا وقت صرف اس خیال پر ضائع نہیں کیا، انہوں نے تجرباتی کیمیا پر زور دیا۔ وہ بہت سے تجربات سے واقف تھے جو آج کے طالب علم بھی اپنی تعلیم گاہوں کی تجربہ گاہ میں کرتے ہیں۔ مثلاً حل کرنا، کشید کرنا، فلٹر کرنا، اشیا کا جوہر اڑانا اور مختلف چیزوں کی قلمیں بنانا۔ اپنی ایک کتاب میں وہ لکھتے ہیں ''کیمیا میں سب سے ضروری چیز تجربہ ہے، جو شخص اپنے علم کی بنیاد تجربے پر نہیں رکھتا، وہ ہمیشہ غلطی کھاتا ہے۔ پس اگر تم کیمیا کا صحیح علم حاصل کرنا چاہتے ہو تو تجربے پر انحصار کرو اور صرف اسی علم کو صحیح جانو جو تجربے سے ثابت ہو جائے۔
کسی کیمیا دان کی قابلیت کا اندازہ اس سے نہیں لگایا جاتا کہ اس نے کیا کیا پڑھا ہے، بلکہ اس بات سے لگایا جاتا ہے کہ اس نے تجربے کے ذریعے کیا کچھ ثابت کیا ہے‘‘۔ انہوں نے اپنی کتابوں میں فولاد بنانے، چمڑا رنگنے، دھاتوں کو صاف کرنے موم جامہ بنانے، لوہے کو زنگ سے بچانے کے لئے اس پر وارنش کرنے، بالوں کا خضاب تیار کرنے اور اسی قسم کی درجنوں مفید چیزیں بنانے کے طریقے ایجاد کئے۔ کیمیائی آلات میں جابر کی سب سے اچھی ایجاد ''قرع انبیق‘‘ (distilling apparatus) ہے جس سے کشید کرنے، عرق کھینچنے اور ست یا جوہر تیار کرنے کا کام لیا جاتا تھا۔ اس آلے میں جو برتن استعمال ہوتے تھے ان میں سے ایک ''قرع‘‘ اور دوسرے کو ''انبیق‘‘ کہتے تھے۔ قرع عموماً صراحی کی شکل کا ہوتا تھا، جس کے ساتھ ایک لمبی نالی لگی ہوتی تھی۔ دوسرا حصہ پہلے پر اچھی طرح آ جاتا تھا اور اس میں پھنس جاتا تھا۔
عطار عرق کھینچنے کے لئے اب بھی یہ آلہ استعمال کرتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ اب وہ مٹی کے بجائے لوہے یا ٹین سے بنایا جاتا ہے۔ اس کا موجودہ نام'' ریٹارٹ‘‘( Retort ) ہے۔ جابر کی ایک اہم دریافت گندھک کا تیزاب ہے۔ انہوں نے اس قرع انبیق سے ہی تیزاب بنایا۔ آج بھی اس کی تیاری کا طریقہ کافی حد تک وہی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ اب ذرا بہتر قسم کے آلات استعمال کئے جاتے ہیں۔ الغرض جابر نے اپنی تحقیقات سے علم کیمیا کو نیا روپ دیا اور اسے کہیں سے کہیں پہنچا دیا۔ انھوں نے کیمیا پر تصانیف بھی لکھیں جن کی زبان عربی ہے۔ ان کی تمام تصانیف کا ترجمہ لاطینی کے علاوہ دیگر یورپی زبانوں میں بھی ہو چکا ہے۔ ان کی علمی تحریروں میں 200 سے زیادہ تصانیف شامل ہیں۔ اسلامی عہد میں سنہری کارنامے انجام دینے والا یہ عظیم سائنس دان 95 برس کی عمر میں فوت ہوا۔
0 Comments