Science

6/recent/ticker-posts

ہبل خلائی دور بین کائنات کے بہت سے راز فاش کر رہی ہے

چار دہائیوں کی منصوبہ بندی کے بعد 24 اپریل 1990 کو شٹل ڈسکوری کے ذریعے ہیلی سپیس ٹیلی سکوپ (ہبل خلائی دوربین) زمین کے گرد 381 میل بلند مدار میں پہنچائی گئی۔ زمین سے کنٹرول کیا جانے والا بارہ ٹن وزنی اور ایک کار کی جسامت کا یہ خلا میں چھوڑا جانے والا سب سے بڑا جسم تھا۔ اس کا نام ایڈون پاول ہبل کے نام پر رکھا گیا تھا۔ ایڈون پاول ہبل (Edwin Powell Hubble) امریکی ماہر فلکیات تھے۔ انہوں نے 1923ء میں نو تعمیر شدہ سوانچی انعکاسی دوربین سے اینڈرومیڈا میں کچھ عام ستارے (یعنی نووا کے علاوہ) دریافت کیے تھے جن میں سیفیڈ بھی شامل تھے۔ کرۂ ہوائی فلکی اجسام سے خارج ہونے والی مرئی، بالائے بنفشی اور انفراریڈ شعاعوں کا ایک خاصا بڑا حصہ روک لیتا ہے اور وہ جسم دھندلا جاتے ہیں۔ بلندی پر ہونے کی وجہ سے یہ دور بین فلکی اجسام کی طیف کے وہ حصے بنانے میں کامیاب ہو جاتی ہے جو زمین پر ممکن نہیں تھا۔ 

ہبل دوربین کی مدد سے زمین پر موجود آلات سے 10 گنا زیادہ صاف طیف بنانا ممکن ہو جاتا ہے۔ ہبل کے عد سے میں کردی کجی نامی ایک فنی خامی کے باعث یہ مرئی روشنی کی شبہیں متوقع صفائی کے ساتھ حاصل نہیں کر سکا۔ پھر سورج کی روشنی کے باعث بھی اس کی بھیجی تصاویر میں 15 سے 20 فیصد تک دھندلاہٹ شامل ہوتی تھی۔ اس کے باوجود ہبل نے پہلے دو سال کے دوران ایسی معلومات ارسال کیں جن تک پہلے رسائی نہیں تھی ۔ اس نے بڑے میگینک بادل میں پھٹنے والے سپر نوا کے گرد گیس کے ایک دمکتے ہالے کی نشان دہی کی۔ اس کی بھیجی گئی تصاویر میں سے ایک کہکشاں M51 کے مرکز میں ایک تاریک علاقہ دریافت کیا گیا جو ایک بلیک ہول کے گرد کے علاقے ہو سکتے ہیں۔ اس دوربین کی خامیاں دور کرنے کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔ ہبل خلائی دوربین Hubble Space Telescope زمین کے مدار میں گردش کرنے والی ایک خلائی رصد گاہ و دوربین ہے۔ اسے خلائی جہاز ڈسکوری کے ذریعے اپریل 1990ء میں مدار میں بھیجا گیا تھا۔ اس کا نام امریکی خلائی سائنسدان ایڈون ہبل کے نام پر رکھا گیا ہے۔

امجد احسان

بشکریہ دنیا نیوز

Post a Comment

0 Comments