بحرالکاہل کے وسط میں واقع چھوٹے سے ملک ٹونگا میں ’ہنگا ٹونگا-ہنگا ہاپائی‘ (Hunga Tonga-Hunga Ha’apai) نامی آتش فشاں پھٹ پڑا جس سے بحرالکاہل کے بڑے حصے میں قریب و دور تک سونامی کی خطرناک لہروں نے ہلہ بول دیا۔ جیسے ہی آتش فشاں پھٹنے کی خبر ملی، مختلف ملکوں کے سرکاری اداروں نے آس پاس کے جزائر اور دور دراز علاقوں نیوزی لینڈ، جاپان اور یہاں تک کہ امریکہ کے مغربی ساحل تک پر سونامی کی وارننگ جاری کر دی۔ آتش فشاں پھٹنے کے محض ابتدائی 12 گھنٹے کے بعد سونامی کی کئی فٹ لمبی لہریں کیلفورنیا کے ساحلوں سے ٹکرا گئیں جو پانچ ہزار میل (آٹھ ہزار کلومیٹر) سے بھی زیادہ فاصلے پر واقع ہے۔ (ٹونگا سینکڑوں جزائر پر مبنی ملک ہے جس کی آبادی ایک لاکھ کے قریب ہے۔ سمندر کے نیچے آنے والے خوفناک زلزلے نے اس پرسکون مجموعۂ جزائر میں ہر طرف تباہی مچا دی۔ اگرچہ اب تک اموات کی زیادہ تعداد سامنے نہیں آئی لیکن لوگوں کے مکانات اور ملک کے تعمیراتی ڈھانچے کو شدید نقصان پہنچا ہے اور ساتھ ہی زیرِ سمندر انٹرنیٹ کی آپٹک فائبر بھی متاثر ہوئی ہے جس سے انٹرنیٹ کی رفتار سست پڑ گئی ہے۔
اس کے علاوہ سونامی کی وجہ سے ملک میں پینے کے پانی کی کمی واقع ہو گئی ہے اور ٹونگا کے باسیوں کی پیاس بجھانے کے لیے دوسرے ملکوں سے وہاں پانی بھیجا جا رہا ہے۔) میں سمندر میں لہروں اور ان کی ہنگامہ خیز ہلچل کا مطالعہ کرنے والی طبعی سمندری ماہر (physical oceanographer) ہوں۔ طالب علموں کو پڑھانے کے لیے میرے پسندیدہ ترین موضوعات میں سے ایک سونامی ہیں کیوں کہ سمندروں میں ان کی حرکت کی طبیعیات بہت سادہ اور دلچسپ ہے۔ ممکن ہے کیلیفورنیا کے ساحلوں سے ٹکرانے والی چند فٹ اونچی لہریں ان تباہ کن لہروں جیسی محسوس نہ ہوں جو اس اصطلاح کو سنتے ہی ذہن کے پردے پر ابھرتی ہیں یا جو آپ ماضی کے المناک سونامیوں کی تصاویر میں دیکھتے ہیں۔ لیکن سونامی عام لہریں نہیں ہیں چاہے ان کا سائز کچھ بھی ہو۔ تو پھر سونامی سمندر کی دیگر لہروں سے کیسے مختلف ہیں؟ وہ کیسے پیدا ہوتی ہیں؟ وہ اتنی تیزی سے کیسے سفر کرتی ہیں؟ سونامی لہریں اتنی تباہ کن کیوں ہوتی ہیں؟
سمندر کی گہرائی سے پانی میں ہلچل زیادہ تر لہریں ہوا سے پیدا ہوتی ہیں کیوں کہ ہوا سطح سمندر پر چلتے ہوئے توانائی پانی میں منتقل کرتی ہے اور پھر پانی میں اتھل پتھل پیدا کرتی ہے۔ اس عمل کے ذریعے وہ لہریں وجود میں آتی ہیں جو آپ روزانہ ساحل سمندر پر دیکھتے ہیں۔ سونامی کی تخلیق کا میکنزم بالکل مختلف ہے۔ جب زیر آب زلزلے کی وجہ سے، آتش فشاں پھٹنے سے یا لینڈ سلائیڈنگ کے سبب پانی کی ایک بڑی مقدار اپنی جگہ سے ہٹتی ہے تو اس توانائی کو کہیں نہ کہیں منتقل ہونا پڑتا ہے، سو وہ لہروں کا ایک سلسلہ پیدا کرتی ہے۔ ہوا سے چلنے والی لہروں میں توانائی سمندر کی اوپری تہہ تک محدود ہوتی ہے لیکن اس کے برعکس سونامی لہروں کے سلسلے سے پیدا ہونے والی توانائی سمندر کے اندر گہرائی تک پھیلی ہوتی ہے۔ مزید برآں ہوا سے چلنے والی لہر کے مقابلے میں سونامی سے پیدا ہونے والی لہریں بہت زیادہ پانی اپنی جگہ سے ہٹانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
آپ یہ بات اس مثال سے سمجھ سکتے ہیں۔ فرض کریں کوئی شخص سوئمنگ پول میں پھونک مارے تو اس سے ننھی سی لہریں پیدا ہوں گی۔ اب تصور کریں کہ کوئی شخص اسی سوئمنگ پول میں چھلانگ لگا دے تو اس کی جسم کے پانی سے ٹکرانے کی صورت میں جو لہریں پیدا ہوں گی ان کی نوعیت پھونک سے پیدا ہونے والی لہروں سے بالکل مختلف ہو گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ غوطہ خور سطح پر ہلکی سی حرکت پیدا کرنے کی بجائے سوئمنگ پول کے اندر گہرائی میں جا کر پانی کی زیادہ مقدار کو اپنی جگہ سے ہٹاتا ہے اس لیے لہروں کا بڑا مجموعہ بنتا ہے۔ زلزلے آسانی سے پانی کی بڑی مقدار کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پھینک سکتے ہیں اور خطرناک سونامی کا سبب بن سکتے ہیں۔ سمندر میں بڑے تودے گرنے سے بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ ٹونگا سونامی کے معاملے میں آتش فشاں کے زوردار دھماکے نے پانی کو اپنی جگہ سے ہلا ڈالا۔ کچھ سائنس دانوں کے مطابق آتش فشاں پھٹنے سے سمندر کے اندر لینڈ سلائیڈنگ بھی ہوئی جس نے پانی میں اتھل پتھل پیدا کرنے میں اپنا حصہ ڈالا۔ مستقبل میں ہونے والی تحقیق اس بات کی تصدیق کرنے میں مدد کرے گی کہ آیا ایسا ہوا یا نہیں۔
سونامی کی لہریں تیزی سے سفر کرتی ہیں سونامی کی وجہ کوئی بھی ہو پانی کے اپنی جگہ سے ہٹنے کے بعد لہریں بیرونی سطح پر ہر جانب پھیلتی ہیں، بالکل جیسے ایک پرسکون تالاب میں پتھر پھینکا جائے تو لہریں چاروں طرف سفر کرتی ہیں۔ چونکہ سونامی کی لہروں میں قوت سمندر کی تہہ سے اوپر تک پہنچتی ہے اس لیے سمندر کی گہرائی بنیادی عنصر ہے جو ان لہروں کی حرکت کا تعین کرتی ہے۔ سونامی کی رفتار کا حساب لگانا دراصل بہت آسان ہے۔ آپ بس اتنا کریں کہ سمندر کی گہرائی (یاد رہے کہ سمندر کی اوسط گہرائی 13 ہزار فٹ یا چار ہزار میٹر ہے) کو کشش ثقل سے ضرب دیں اور جو رقم حاصل ہو، اس کا جزر نکال لیں۔
آپ کو زحمت سے بچانے کے لیے میں خود یہ حساب کیے دیتی ہوں۔ ایسا کرنے سے آپ کو تقریباً 440 میل فی گھنٹہ (یا 700 کلومیٹر فی گھنٹہ) کی اوسط رفتار ملتی ہے۔ یہ عام لہروں کی رفتار سے کہیں زیادہ تیز ہے جو تقریباً 10 سے 30 میل فی گھنٹہ (15 سے 50 کلومیٹر فی گھنٹہ) تک ہو سکتی ہے۔ یہ وہی مساوات ہے جسے سمندر کے ماہرین اس بات کا اندازہ لگانے کے لیے استعمال کرتے ہیں کہ سونامی کب دور دراز کے ساحلوں تک پہنچے گی۔ 15 جنوری کو ابتدائی طور پر ٹونگا سے شروع ہونی والی سونامی نے 12 گھنٹے اور 12 منٹ بعد کیلیفورنیا کے شہر سانتا کروز کو نشانہ بنایا۔ سانتا کروز ٹونگا سے پانچ ہزار 280 میل (آٹھ ہزار 528 کلومیٹر) کے فاصلے پر ہے جس کا مطلب ہے کہ سونامی نے 433 میل فی گھنٹہ (697 کلومیٹر فی گھنٹہ) کی رفتار سے سفر کیا جو سمندر کی اوسط گہرائی کا استعمال کرتے ہوئے حساب کی گئی رفتار کے تخمینے سے کم و بیش مماثل ہے۔
زمین پر تباہی ہر جگہ سطح سمندر پر چلنے والے ہوا کے سبب اٹھنے والی لہروں کے مقابلے میں سونامی بہت کم آتی ہے لیکن جب آئے تو اکثر و بیشتر بہت تباہ کن ثابت ہوتی ہیں۔ 2004 میں بحر ہند کے سونامی میں سوا دو لاکھ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ 2011 میں جاپان کے اندر آنے والے سونامی کی زد میں آ کر 20 ہزار افراد زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے (جب کہ فوکو شیما ایٹمی پاور پلانٹ کو نقصان پہنچنے سے جو ایٹمی تابکاری پھیلی اس پر آج تک پوری طرح قابو نہیں پایا جا سکا)۔
وہ کیا چیز ہے جو سونامی کو عام سمندری طوفانوں کے مقابلے میں زیادہ خطرناک بناتی ہے؟ کھلے سمندر میں سونامی کی لہریں چھوٹی اور اتنی ہلکی ہوتی ہیں کہ ممکن ہے سطح پر تیرنے والی کسی کشتی سے ان کا اندازہ ہی نہ کیا جا سکے۔ لیکن جیسے جیسے سونامی زمین کی طرف بڑھتی ہے سمندر کی گہرائی بتدریج کم ہوتی جاتی ہے اور تمام لہروں کی توانائی جو ہزاروں فٹ تک گہرے سمندر کی تہہ تک پھیلی ہوئی تھی وہ نسبتاً کم جگہ پر اکٹھا ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ اپنی جگہ سے ہلے ہوئے پانی کو کہیں نہ کہیں تو جانا ہے۔ واحد راستہ اوپر کو اٹھنا ہے سو جیسے جیسے لہریں ساحل کے قریب آتی ہیں ویسے ویسے اونچی ہوتی جاتی ہیں۔ جب سونامی کی لہریں ساحل پر پہنچتی ہیں تو وہ اکثر سمندر کی عام لہروں کی طرح ٹوٹتی یا بکھرتی نہیں، بلکہ وہ ایک دیو قامت پانی کی دیوار کی شکل اختیار کر لیتی ہیں جو ساحل کے آس پاس کے علاقے کو غرقاب کر سکتی ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے سطح سمندر اچانک چند فٹ یا اس سے زیادہ بلند ہو جائے۔ یہ سیلاب اور بہت مضبوط دھاروں کا سبب بن سکتا ہے جو لوگوں، کاروباروں اور عمارتوں کو بہا کر اپنے ساتھ لے جاسکتے ہیں۔
خوش قسمتی سے سونامی بہت ہی کم آتے ہیں اور اب ان کی آمد اتنی غیر متوقع بھی نہیں رہی کہ بے خبری میں مارے جائیں۔ اب نیچے دباؤ کی صورت حال جان سکنے والے Dart buoys نامی سینسرز لگے ہوتے ہیں جو سونامی کی لہر کو محسوس کر سکتے ہیں اور حکومتی اداروں کو سونامی پہنچنے سے پہلے لوگوں کو متنبہ کرنے کا موقع دیتے ہیں۔ اگر آپ ساحلی علاقوں سے قریب رہتے ہیں بالخصوص بحرالکاہل کے جہاں سونامی بکثرت آتے ہیں تو اونچی زمین تک پہنچنے کے لیے راستے ضرور معلوم کر رکھیں اور اگر آپ کو سونامی کی وارننگ ملتی ہے تو اس پہ کان دھریں۔ ہنگا ٹونگا-ہنگا ہاپائی میں آتش فشاں پھٹنے سے ٹونگا کے لوگوں کو باقی دنیا سے جوڑنے والی اہم مواصلاتی تار منقطع ہو گئی۔ اگرچہ سونامی کی سائنس دلچسپ ہے لیکن یہ ایک تباہ کن قدرتی آفتیں ہیں۔ ٹونگا سے ہلاکتوں کی ملنے والی تعداد ابھی تک چند افراد تک محدود ہے لیکن بہت سے لوگ ابھی تک لاپتہ ہیں اور سونامی سے پہنچنے والے نقصان کی صحیح سطح کا ابھی تک کچھ پتہ نہیں چل سکا۔
یہ تحریر ’دا کنورسیشن‘ سے لی گئی ہے اور اس کا ترجمہ ان کی اجازت سے پیش کیا جا رہا ہے۔ اس کی مصنفہ سیلی وارنر امریکی ریاست میساچوسٹس میں واقع برانڈیز یونیورسٹی میں ماحولیاتی سائنس کی اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔
0 Comments