ابن خلدون کا شمار بلاشبہ اسلام کے چند عظیم تاریخ دانوں، سیاسی مفکروں اور دانشوروں میں ہوتا ہے کہ جنہوں نے پولیٹیکل سائنس میں نئی جہتیں متعارف کروائیں۔ ابن خلدون 1332 میں پیدا ہوئے ۔ ابن خلدون وہ پہلے مفکر تھے کہ جنہوں نے تاریخ کو سائنس کے زائچے میں ڈھال کر دیکھنے کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ انہوں نے تاریخ کو نہ صرف ایک اسکالر کی حیثیت سے پرکھا بلک ایک ماہر قانون دان کے طور پر ان گنت زاویوں سے قابل عمل نظریات پیش کیے۔ ابن خلدون کے چند عظیم کاموں میں سے ایک یہ ہے کہ انہوں نے تاریخ اور تاریخ میں ہونے والی تبدیلیوں کو سائنسی نظر سے دیکھا، پرکھا اور اس سے نتائج اخذ کئے اور ان نتائج کی بنیاد پر سوسائٹی کے مختلف پہلوں پر روشنی ڈالی اور سوسائٹی کے لیے جدید اور قابل عمل قوانین پیش کے۔
دوسرے فلسفیوں کے برعکس ابن خلدون نے نہ صرف تاریخ کا بغور مطالعہ کیا بلکہ اس کو مکمل حقائق کے ساتھ پیش کیا۔ انہوں نے تاریخ پر وسیع تحریریں لکھیں،اور مختلف سوسائٹیز کے عروج و زوال کی وجوہات پر روشنی ڈالی جس کی بنیاد پر انہوں نے اپنے نظریات کی عمارت تعمیر کی۔ گویا کہ ابن خلدون نے تاریخ کو ایک الگ اور انوکھے انداز سے دیکھا۔ ابن خلدون نے سیاست کو تاریخ کے دھارے میں ہونے والی مختلف تبدیلیوں اور حالات و واقعات کے تناظر میں پیش کیا اور اپنے نظریات کا پرچار کیا۔ ابن خلدون کے مطابق تمام سیاسی اداروں کی ہیئت اور ساخت کا دارومدار اس دور کے سیاسی، مذہبی، سماجی اور معاشی حالات پر ہوتا ہے اور سیاست کو زمانے سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ ابن خلدون وہ پہلے مسلم فلسفی تھے کہ جنہوں نے سیاسی اداروں، حکومت کی اقسام، اور دیگر اداروں کے اسٹرکچر میں کار فرما عوامل کو مفصل انداز میں بیان کیا اور اس پر عرق ریزی سے تحقیق کی۔
ابن خلدون کے مطابق ریاست انسانی زندگی کا ایک فطری نتیجہ ہے جس کو اجتماع اور اتحاد کی ضرورت ہے۔ ابن خلدون کہتے ہیں کہ "انسان فطری طور پر ایک شہری ہے"۔ اور انسان کی کھانے پینے، کپڑے پہننے اور گھر کی تمام ضروریات پوری کرنے کے لیے باہمی امداد کی اشد ضروری ہے۔ اس باہمی امداد کے بغیر انسانی معاشرے کا وجود ناممکن ہے اس کے علاوہ مذہب بھی ایک اہم پہلو ہے ۔ ابن خلدون نے سب سے پہلے سیاست اور معیشت کے ربط کو ظاہر کیا اور اس پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ ابن خلدون نے مختلف معاشی پہلوں پر روشنی ڈالی اور اور انکی سیاسی اہمیت اور انکے ریاست پر اچھے اور برے اثرات بیان کئے۔
وہ پہلے ماہر اقتصادیات تھے کہ جنہوں نے پولیٹیکل اکانومی کے اصولوں کو سمجھا اور انکو انتہائی ماہرانہ طریقے سے آپس میں جوڑا۔ ان سے پہلے کسی مفکر نے سیاست اور معیشت پر اس قدر مفصل اور وسیع پیمانے پر نہ لکھا اور نہ ہی کوئی تھیوری پیش کی اور اس وقت مغرب اس تصور سے مکمل طور پر لاعلم تھا۔ انہوں نے تنخواہ اور الاؤنس، ٹیکس کا نظام، کمانے کے ذرائع، اور دیگر موضوعات پر تفصیل سے تحریر یں لکھیں۔ شائد ہی کسی اور فلسفی نے پولیٹیکل اکانومی پر اس قدر مکمل اور واضح خیالات کا اظہار کیا ہو۔
0 Comments