آج ہر شخص ’’سائنس‘‘ اور ’’سائنٹیفک‘‘ کے الفاظ سے واقف ہے۔ سب جانتے ہیں کہ موجودہ دور سائنس کا دور ہے، اس کے باوجود اس سوال کا جواب بہت کم لوگ دے سکیں گے کہ سائنس کیا ہے۔ عام لوگ ٹیلی ویژن، ریڈیو، ٹیلی فون، ہوائی جہاز، ایٹم بم اور اس قسم کی دوسری ایجادات کو سائنس سمجھتے ہیں، حالانکہ یہ سائنس نہیں ہیں، بلکہ سائنس کا حاصل اور پھل ہیں۔ سائنس لاطینی لفظ scientia سے مشتق ہے جس کے لغوی معنی غیر جانبداری سے حقائق کا ان کی اصل شکل میں باقاعدہ مطالعہ کرنا ہے۔ علت و معلول اور ان سے اخذ شدہ نتائج کو ایک دوسرے سے منطبق کرنے کی کوشش کرنا، اسی کا نام سائنس ہے۔
سائنس کی اس تعریف میں حقائق اور علت و معلول (cause & effect) کے الفاظ کسی قدر تشریح چاہتے ہیں:
حقائق
حقائق حقیقت کی جمع ہے۔ عام طور پر لفظ حقیقت دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ کسی چیز کی حقیقت مثلاً انسان، درخت، جانور، سورج اور تمام موجودات عالم کی حقیقت اس زمرے میں آتی ہے۔ یہاں لفظ حقیقت reality یا truth کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ سائنس حقیقت کے اس مفہوم سے بے تعلق تو نہیں ہے لیکن اس کا براہ راست رشتہ فلسفیانہ مباحث سے ہے۔ کسی چیز کی حقیقت اور اس حقیقت کی بھی حقیقت معلوم کرنے کی کوشش فلسفی کرتا ہے۔ سائنس کا جس حقیقت سے تعلق ہے، وہ ایسی ہے جیسے یہ صاف اور واضح حقیقت کہ ہوا چل رہی ہے، بجلی چمکتی ہے، حرارت سے اجسام پھیلتے ہیں، آگ سے ہاتھ جل جاتا ہے، کنجی گھمانے سے قفل کھل جاتا ہے وغیرہ۔ سائنس کے مفہوم میں حقیقت سے مراد واقعات، مظاہر اور اشیا ہیں۔ اگر واقعات، مظاہر اور اشیا کی حقیقت بھی معلوم کرنی ہو تو یہ کام فلسفہ کے سپرد ہے۔ گویا حقائق کا ادراک سائنس کے دائرہ عمل میں آتا ہے اور حقیقت الحقائق کا ادراک فلسفہ کے دائرہ عمل میں شامل ہے۔
حقائق کی عموماً پانچ قسمیں دنیا میں پائی جاتی ہیں۔ طبیعی، کیمیاوی، حیاتیاتی، عضویاتی اور ذہنی۔ سورج روزانہ نکلتا اور ڈوبتا ہے۔ تالاب میں کنکر پھینکا جائے تو وہ نیچے تہہ میں جا کر بیٹھ جاتا ہے۔ پانی ہمیشہ اپنی سطح ہموار رکھتا ہے یعنی پانی ہمیشہ بلندی سے پستی کی طرف بہتا ہے۔ کوئی چیز فضا میں چھوڑی جائے تو وہ ہمیشہ نیچے گرتی ہے۔ یہ سب طبیعی حقائق ہیں۔ کیمیائی حقائق میں یہ بات شامل ہے کہ ہائیڈروجن اور آکسیجن کے مرکب سے پانی بنتا ہے۔ حقائق کو سائنس کا خام مواد کہا جاتا ہے۔ ہر سائنس کا پہلا کام یہ ہے کہ وہ اپنے مطلب کے حقائق کا مشاہدہ کر کے انہیں یکجا کرے۔ فلکیات صرف اجرام فلکی، حیوانیات صرف حیوانات، ارضیات صرف زمین اور عمرانیات صرف معاشرے کا مطالعہ کرتی ہے۔ ہر سائنس کائنات کے صرف ایک قسم کے حقائق کا مطالعہ کرتی ہے۔
علت و معلول
سائنس کا کام یہیں ختم نہیں ہو جاتا کہ وہ اپنے مطلب کے حقائق کا مشاہدہ کر کے انہیں یکجا کر لے اور اپنے دائرہ اثر میں لے آئے۔ درحقیقت اس کا اصل کام تو اسی مرحلے سے شروع ہوتا ہے۔ سائنس تو حقائق کی تنظیم و تربیت کا نام ہے۔ جب تک حقائق ایک دوسرے سے الگ تھلگ اور ایک دوسرے سے لاتعلق رہتے ہیں، ان کی کوئی سائنس وجود میں نہیں آتی۔ اس صورت میں جو کچھ موجود ہے، وہ صرف سائنس کا خام مواد ہے۔ اگر اینٹ، گارا، سیمنٹ، لکڑی اور لوہا الگ الگ پڑا ہو تو اس سے مکان نہیں بنتا۔ ان سب کی ایک خاص تنظیم اور ترتیب کا نام مکان ہے۔ بالکل اسی طرح ایک خاص قسم کے حقائق کی ایک خاص ترتیب اور تنظیم سے ان کی اپنی سائنس وجود میں آتی ہے۔ حقائق کی تنظیم و ترتیب ناممکن نہیں ہے کیونکہ حقائق کا ہمیشہ ایک دوسرے سے تعلق رہتا ہے۔ یہ تعلق علت و معمول کا ہے۔
فلاں حالات کے تحت فلاں نتیجہ ظاہر ہو گا۔ تو یہاں حالات کو علت اور نتائج کو معلول کہا جائے گا۔ جب کبھی کچھ حقائق رونما ہوتے ہیں تو چند اور حقائق ان کے نتیجے میں ظاہر ہوتے ہیں۔ جب ہم کنجی گھماتے ہیں تو اس حالت کا کیا نتیجہ نکلتا ہے؟ قفل کھل جاتا ہے۔ اگر آپ چولہے میں دہکتی ہوئی آگ میں ہاتھ ڈالیں گے تو آپ کا ہاتھ جھلس جائے گا۔ اگر آپ کا بچہ آپ کی قیمتی اور نایاب کتاب پھاڑ دے گا تو آپ کو غصہ آئے گا۔ سانس کا تعلق صرف حالات یا اسباب یا علتوں ہی سے نہیں بلکہ ان کے نتیجے سے بھی ہے۔ کنجی کا گھومنا، آگ کا دہکنا اور کتاب کا پھٹنا ہی صرف وہ حقائق نہیں ہیں جو سائنس کے موضوع میں داخل ہیں بلکہ ان کے نتائج یعنی قفل کھلنا، ہاتھ کا جھلسنا اور غصے کا آنا، یہ سب حقائق بھی سائنس کے دائرہ عمل میں شامل ہیں۔
0 Comments