بیماریوں کی رو ک تھام کے یورپی ادارے کے ایک جائزے کے مطابق یورپی یونین میں اینٹی بائیوٹک ادویات کے خلاف مزاحمت پیدا کر لینے والے بیکٹریا کی وجہ سے سالانہ بنیادوں پر تینتیس ہزار افراد ہلاک ہو جاتے ہیں۔ بيماريوں سے بچاؤ کے يورپی سينٹر ’ای سی ڈی سی‘ کے ايک تازہ مطالعے کے مطابق ايسی بیماریاں، جن کے خلاف ’اينٹی بائيوٹک‘ ادويات کارگر ثابت نہیں ہوتیں، ان کی تعداد سن دو ہزار سات سے مسلسل بڑھ رہی ہے۔ سن دو ہزار سات میں ان بیکٹریا نے تقریبا پچس ہزار افراد کی جان لی تھی۔ رپورٹ کے مطابق ان بیکٹریا کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثر بچے اور عمر رسیدہ افراد ہوتے ہیں کیونکہ ان کا مدافعتی نظام قدرے کمزور ہوتا ہے۔
عالمی طبی جریدے لانسیٹ میں شائع ہونے والی اس تحقیق کے مطابق نام نہاد ’سُپر بگ‘ سے خطرات مسلسل بڑھتے جا رہے ہیں۔ سائنسدان پہلے بھی خبردار کر چکے ہیں کہ یہ بیکٹریا آہستہ آہستہ انتہائی طاقتور اینٹی بائیوٹک ادویات کے خلاف مزاحمت پیدا کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔ یہ وہ ادویات ہیں، جو انفیکشن کے آخری مراحل میں دی جاتی ہیں۔ طبی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ سُپر بگ کے حملے کے نتیجے میں یہ ادویات کارگر نہیں ہوں گی تو صورتحال زیادہ پیچیدہ ہو جائے گی۔ اس صورت میں انفیکشنز کا علاج ناممکن ہو جائے گا۔ اس رپورٹ کے مصنفین نے اصرار کیا ہے کہ اس صورتحال سے نمٹنے کی خاطر یورپی یونین اور دیگر ممالک کے مابین مؤثر رابطہ کاری اور تعاون کی ضرورت ہے۔
اینٹی بائیوٹک ادویات کے خلاف مزاحمت اس وقت پیدا ہوتی ہے، جب بیماری کی وجہ بننے والے بیکٹیریا خود میں تبدیلی لاتے ہوئے ان اینٹی بائیوٹیکس کے خلاف خود میں مزاحمت پیدا کر لیتے ہیں، جو ان بیکٹیریا کے باعث پیدا ہونے والے انفیکشن کے علاج کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔ اینٹی بائیوٹک ادویات کا ضرورت سے زیادہ استعمال یا ان کے غلط استعمال سے ادویات کے خلاف مزاحمت رکھنے والے بیکٹیریا بننے کی وجہ بنتے ہیں، جنہیں عام طور پر ’سُپر بگز‘کا نام دیا جاتا ہے۔ سُپر بگ انفیکشن، جن میں تپ دق، ٹائیفائیڈ اور سوزاک جیسی بیماریوں کی مختلف ادویات کے خلاف مزاحمت رکھنے والی اقسام شامل ہیں، ہر سال لاکھوں افراد کی ہلاکت کی وجہ بنتی ہیں اور اس رجحان میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ڈبلیو ایچ او کی ڈائریکٹر جنرل مارگریٹ چن کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق، ’’اینٹی بائیوٹیک ریزسٹنس صحت کا ایک عالمی بحران ہے۔ یہ دنیا کے تمام حصوں میں خطرناک حد تک بلند سطح پر پہنچ رہا ہے۔‘‘
0 Comments