Science

6/recent/ticker-posts

ابونصر فارابی اور علم کا دیا

ترکستان کے ایک شہر کا نام ہے ’’فاراب‘‘۔ بہت مدت گزری، اس شہر کے ایک محلے میں ایک بڑا غریب لڑکا رہتا تھا جسے علم حاصل کر نے کا بے حد شوق تھا۔ دن کو تو وہ استاد کے ہاں جا کر سبق پڑھتا تھا اور جب رات آتی تھی تو وہ دن کا پڑھا ہوا سبق یاد کرتا تھا اور اس وقت تک نہیں سوتا تھا جب تک یہ سبق پوری طرح یاد نہیں ہو جاتا تھا۔ اس کی چارپائی کے سرہانے مٹی کا ایک دیا جلتا رہتا تھا اور اسی دیے کی روشنی میں رات کے دو دو بجے تک پوری کی پوری کتاب پڑھ لیتا تھا۔ بعض اوقات ساری رات ہی پڑھنے میں گزر جاتی تھی۔ 

ایک رات کا ذکر ہے کہ وہ اپنی چارپائی پر بیٹھا پوری توجہ اور انہماک سے کسی کتاب کا مطالعہ کر رہا تھا کہ دیے کی روشنی مدھم ہو گئی۔ اس نے بتی کو اونچا کیا، روشنی ہوئی تو ضرور مگر بڑی جلدی ختم ہو گئی۔ اب جو اس نے دیے پر نظر ڈالی تو یہ دیکھ کر بہت افسوس ہوا کہ تیل تو دیے میں ہے ہی نہیں روشنی اگر ہو تو کیوں کر ہو۔ ’’اب میں کیا کروں؟‘‘ اس نے اپنے دل میں سوچا۔ رات آدھی کے قریب گزر چکی تھی۔ شہر کی دکانیں بند ہو چکی تھیں اور اگر دکانیں کھلی بھی ہوتیں تو لڑکے کو کچھ فائدہ نہ ہوتا کیوں کہ اس کے پاس تو تیل خریدنے کے لیے بھی پیسے نہیں تھے۔ پیسوں کے بغیر کون دکان دار اسے تیل دے سکتا تھا۔

اس حالت میں بہتر یہی تھا کہ وہ کتاب ایک طرف رکھ کر سو جائے، مگر پورے دو گھنٹے کس طرح ضائع کر سکتا تھا اور پھر دوسرے دن بھی اس کے پاس کہاں سے پیسے آسکتے تھے؟ روٹی تو وہ مسجد میں جا کر کھا لیتا تھا اور محلے کے ایک بچے کو پڑھا کر جو رقم ملتی تھی۔ اس سے وہ اپنے لیے معمولی کپڑے اور تیل خرید لیتا تھا۔ ان میں سے اسے جتنے پیسے ملے تھے وہ خرچ کر چکا تھا اور ان دنوں اس کے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔ دیے کے اس طرح بجھ جانے سے اسے بڑا افسوس ہوا۔ وہ اپنی کوٹھڑی سے نکل کر دروازے پر آ بیٹھا۔

رات کا اندھیرا ہر جگہ چھایا ہوا تھا۔ کہیں بھی کوئی چراح جلتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا تھا سب لوگ آرام کر رہے تھے۔ اتنے میں اس کی نظر روشنی کی ایک ننھی سی لکیر پر پڑی جو دور کسی دیوار پر دکھائی دے رہی تھی۔ اسے دیکھتے ہی اس کے دل میں خواہش ہوئی کہ کاش یہ روشنی اس کے گھر میں ہوتی۔ روشنی دیکھ کر وہ اٹھ بیٹھا۔ ادھر قدم اٹھانے لگا جدھر سے روشنی آ رہی تھی۔ اپنی کتاب وہ ساتھ ہی لے آیا تھا تا کہ موقع ملے تو اسی روشنی میں کتاب کا باقی حصہ پڑھ ڈالے اور پھر واپس آ جائے۔ 

کچھ دور جا کر اس نے دیکھا کہ وہ روشنی ایک قندیل میں سے نکل رہی ہے اور یہ قندیل محلے کے چوکیدار کے ہاتھ میں ہے۔ اس نے چوکیدار سے بڑے ادب سے کہا : جناب اگر آپ اجازت دیں تومیں قندیل کی روشنی میں کتاب پڑھ لوں؟ چوکیدار ایک نیک آدمی تھا وہ سمجھ گیا کہ غریب طالب علم ہے۔ تیل خریدنے کے لیے پاس پیسے نہیں ہیں۔ بولا: ہاں بیٹا پڑھ لے۔ میں تھوڑی دیر یہاں بیٹھوں گا یہاں بیٹھ جا! لڑکا بیٹھ کر کتاب پڑھنے لگا۔ اب مشکل یہ تھی کہ چوکیدار ایک ہی جگہ زیادہ دیر تک نہیں بیٹھ سکتا تھا۔ اس لیے کہنے لگا: لو بیٹا اب تم گھر جاؤ اور سو رہو مجھے آگے جانا ہے۔ لڑکا بولا: آپ ضرور آگے جائیے جہاں جی چاہے جائیے لیکن میں آپ کے پیچھے پیچھے چلوں گا۔

چوکیدار قندیل اٹھا کر آگے آگے چلنے لگا اور لڑکا پیچھے پیچھے۔ اس طرح مطالعہ کرنے میں اسے بڑی دقت پیش آ رہی تھی، لیکن اس نے ہمت نہ ہاری۔ چار بجے تک پڑھتا رہا اور پھر چوکیدار کا شکریہ ادا کر کے گھر چلا گیا۔ دوسری رات بھی یہی واقعہ ہوا۔ تیسری رات لڑکا آیا تو چوکیدار کہنے لگا: بیٹا! لو یہ قندیل اپنے گھر لے جاؤ میں نئی قندیل لے آیا ہوں۔ لڑکے نے یہ الفاظ سنے تو اسے اتنی خوشی ہوئی جیسے ایک بہت بڑا خزانہ مل گیا ہو۔ وہ قندیل اپنی کوٹھڑی میں لے آیا اور اطمینان کے ساتھ کام کرنے لگا۔ چند روز کے بعد اسے پیسے ملے تو وہ بازار سے تیل خرید لایا اور اسے دیے میں ڈال دیا۔

کئی دن گزرے ، کئی سال گزر گئے۔ لڑکا جوان ہو گیا۔ جیسے جیسے اس کی عمر بڑھتی جاتی تھی، اس کا علم بھی بڑھتا جاتا تھا اور پھر ایک دن ایسا آیا کہ وہ اپنے وقت کاسب سے بڑا استاد بن گیا۔ بڑے بڑے عالم فاضل لوگ دور دور سے اس کے پاس آتے تھے اور اس سے علم حاصل کرتے تھے۔ وہ علم کا ایک دریا بن گیا تھا، جس سے علم کے پیاسے اپنی پیاس بجھاتے تھے۔ جانتے ہو یہ کون تھا؟یہ تھا ابو نصر فارابی! ابونصر فارابی جس کی وفات ہزار برس سے زیادہ عرصہ بیت چکا ہے، مگراس کی عزت و عظمت میں فرق نہیں آیا۔ جس کے اپنے دیے کی روشنی ختم ہو گئی لیکن علم کا جو دریا اس نے جلایا اس کی روشنی کبھی ختم نہ ہوگی۔

میرزا ادیب 

( کتاب مشہور طبیب اور سائنسدان سے اقتباس)
 

Post a Comment

0 Comments