بی بی سی کے لیے لکھے جانے والے ایک مضمون میں نوبیل انعام یافتہ سائنس دان اور برطانیہ کی رائل سوسائٹی کے صدر سر وینکی رام کرشنن نے سائنسی دریافت کے موضوع پر روشنی ڈالی ہے کہ اس نے کیسے ایک مختصر دورانیے میں ہمارا تصورِ کائنات بدل کر رکھ دیا ہے۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ ہمیں کیوں آج بھی اپنی تحقیق کے استعمال کے بارے میں محتاط رہنا چاہیے۔ اگر ہم معجزاتی طور پر سنہ 1900 سے ذہین ترین افراد کو آج کی دنیا میں لے آئیں تو وہ یہ دیکھ کر حیرت زدہ رہ جائیں گے کہ جن مسائل نے انسان کو صدیوں سے پریشان کر رکھا تھا ہم نے ان کا حل بڑی حد تک تلاش کر لیا ہے۔
صرف ایک سو سال پہلے لوگوں کو یہ معلوم نہیں تھا کہ وراثت اگلی نسلوں کو کیسے منتقل ہوتی ہے یا ایک خلیہ کیسے تقسیم ہو کر پورا جاندار بن جاتا ہے۔ انھیں یہ معلوم نہیں تھا کہ ایٹم کی اندرونی ساخت بھی ہوتی ہے، حالانکہ خود لفظ ایٹم کا مطلب 'ناقابلِ تقسیم' ہے۔ انھیں معلوم نہیں تھا کہ کائنات یا زندگی کا آغاز کیسے ہوا۔ آج بنیادی دریافتوں کی بدولت ہم ان سوالوں کے جواب دے سکتے ہیں یا کم از کم کوشش کر سکتے ہیں۔ ان جوابات نے ہمارا کائنات کے بارے میں اور خود اپنی روزمرہ زندگی کے بارے میں تصور بدل کر رکھ دیا ہے۔ آج ہم جن چیزوں کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے وہ بھی بنیادی سائنس اور ٹیکنالوجی کی وجہ سے وجود میں آئی ہیں اور یہ دونوں ایک دوسرے کو آگے بڑھاتی ہیں۔
تقریباً ہر ایجاد کے پیچھے ایک یا ایک سے زیادہ بنیادی دریافتیں ہوتی ہیں۔ بعض اوقات بنیادی دریافت صدیوں پرانی ہوتی ہے۔ نیوٹن کے قوانینِ حرکت سمجھے بغیر جیٹ انجن یا راکٹ ایجاد کرنا ممکن نہیں تھا۔ ان سو سالوں میں سائنس میں کئی بڑے لمحے آئے۔ جیسے ڈی این اے کی ساخت کی دریافت۔ لیکن خود یہ دریافت بھی ڈارون اور مینڈل کی وجہ سے ممکن ہو سکی اور اس نے بعد میں بائیو ٹیکنالوجی کے دروازے کھول دیے۔ آج ہم انسان کے مکمل ڈی این اے (جسے 'جینوم' کہتے ہیں) کا آسانی سے جائزہ لے سکتے ہیں۔ اس سے ہمیں یہ سمجھنے میں مدد ملی ہے کہ جینیاتی بیماریاں کیسے لاحق ہوتی ہیں اور انھیں کیسے ٹھیک کیا جا سکتا ہے۔ حال ہی میں سائنس دانوں نے ایک بچی کے جینز میں تبدیلی لا کر اسے لاحق کینسر کا مرض دور کر دیا۔
تاہم انسانی جینوم اس قدر پیچیدہ ہے کہ ہم نے یہ سمجھنا ابھی حال ہی میں شروع کیا ہے کہ جین کیسے ماحول کے ساتھ مل کر ہمارے جسم کا نظام چلاتے ہیں۔ بگ بینگ تھیوری نے ہمیں بتایا کہ کائنات کیسے وجود میں آئی۔ سو سال قبل اس سوال کا جواب صرف مذہب ہی دے سکتا تھا۔ جب ہمیں پتہ چلا کہ کائنات جامد نہیں ہے بلکہ مسلسل پھیل رہی ہے اور کہکشائیں ایک دوسرے سے دور ہٹتی جا رہی ہیں، تو اس سے یہ اندازہ لگایا گیا کہ آغاز میں تمام مادہ ایک ہی جگہ پر مرکوز تھا اور کائنات ایک عظیم دھماکے کے نتیجے میں وجود میں آئی۔
اس علم نے ہمیں سب سے بڑے سوال کا جواب دینے کے لیے مواد فراہم کیا ہے۔ اور وہ سوال ہے، ہر چیز کہاں سے آئی؟ اس سے ہمارا ننھا سا سیارہ مزید چھوٹا لگنے لگا ہے، تاہم ہمارے اندر جو علم کی تڑپ ہے، اس نے ہمیں احساسِ کمتری کا شکار ہونے سے بچائے رکھا ہے۔ اپالو مشن سے لے کر کیسینی خلائی جہاز تک اور ہبل خلائی دوربین سے لے کر ثقلی موجوں کی دریافت تک، یہ تمام انکشافات ہمیں خلا کے بارے میں مزید سوالوں کے جواب ڈھونڈے پر اکساتے ہیں۔ آج ہم دنیا کو بڑی حد تک ایک الیکٹرانک سکرین پر دیکھتے ہیں۔ کمپیوٹر مختلف شکلوں میں علم کا ماخذ ہیں، لیکن وہ اس بات کا بھی تعین کرتے جا رہے ہیں کہ ہم بقیہ دنیا اور دوسرے انسانوں کے ساتھ کس طرح سے پیش آتے ہیں۔
آج کے دور کی ایک انتہائی عام چیز یعنی سمارٹ فون بھی کئی بنیادی دریافتوں کی مرہونِ منت ہے۔ اس کے اندر موجود کمپیوٹر انٹی گریٹڈ چپ کی مدد سے کام کرتا ہے۔ خود انٹی گریٹڈ چپ ٹرانزسٹروں سے بنی ہوتی ہے، جن کی دریافت کوانٹم مکینکس کی تفہیم کے بغیر ممکن نہیں تھی۔ فون کے اندر موجود جی پی ایس آئن سٹائن کے نظریۂ اضافیت میں وقت کے تصور کی تفہیم پر کام کرتا ہے۔ حالانکہ ایک زمانے میں لوگوں کا خیال تھا کہ یہ نظریہ عام زندگی پر کوئی اثر نہیں ڈال سکے گا۔
اس وقت کمپیوٹر نئی دریافتوں میں مدد دے رہے ہیں جن کی وجہ سے ہمارا دنیا کے بارے میں تصور بدلتا جا رہا ہے۔ اس وقت ہمارے درمیان ایسی مشینیں موجود ہیں جو خود سیکھ سکتی ہیں اور وہ ہماری دنیا کو تبدیل کر رہی ہیں۔ کمپیوٹر صحت اور سماجی میدانوں میں پیش رفت کے وسیع امکانات رکھتے ہیں، اور ہم جلد ہی اپنے درمیان بغیر ڈرائیور والی کاریں اور جدید روبوٹ دیکھ سکیں گے، لیکن ہمیں اس بارے میں بہت سوچ سمجھ کر فیصلے کرنے ہوں گے کہ ہمیں ذہین مشینوں کو کس تک دخل اندازی کی اجازت دینی چاہیے۔ ایجادات اخلاقی طور پر نہ بری نہ اچھی ہوتی ہیں، ہمارا استعمال انھیں اچھا یا برا بنا دیتا ہے۔ ایک دریافت جس نے ہمیں دو حصوں میں تقسیم کر دیا وہ ایٹم کی تقسیم تھی۔ اس دریافت نے دنیا کے خطرناک ترین ہتھیار ایجاد کرنے کی راہ ہموار کی۔
تباہی کے خوف نے امن قائم کیا ہے لیکن یہ صورتِ حال زیادہ پائیدار نہیں ہے بعض لوگ کہتے ہیں کہ مکمل تباہی کا خوف امن جاری رکھنے کی ضمانت ہے۔ لیکن یہ کوئی پائیدار حل نہیں ہے جس کا ایک ثبوت شمالی کوریا کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔ دوسری طرف ایٹم کی تقسیم نے ہمیں توانائی کا ایک سستا ذریعہ بھی فراہم کیا ہے۔ سائنس خود ہمارے بارے میں اور ہمارے ارد گرد کی دنیا کے بارے میں جاننے کی جستجو کا نام ہے۔ اسی جستجو نے ہمارے دنیا کے بارے میں تصورات بھی بدلے ہیں اور ہماری زندگیوں کو بھی بدل دیا ہے۔ آج ہماری عمریں 1900 کے مقابلے پر دگنی ہیں اور معیارِ زندگی بھی پہلے سے کہیں بہتر ہے۔ لیکن سائنس اور ٹیکنالوجی کے استعمال نے صرف سائنس دانوں ہی پر اثر نہیں ڈالا۔ ان کا انحصار ثقافتی، معاشی اور سیاسی عوامل پر ہے۔ سائنس انسانی علم کی فتح ہے، اور اس کی تفہیم اور استعمال سے ہمیں دور رس فیصلے کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
0 Comments