Science

6/recent/ticker-posts

ابنِ باجہ : مغرب میں مسلم فلسفے کی شروعات

عبدالرحمان ناصر اور اس کے بیٹے حکم ثانی کے دورِ زریں میں ہمیں علم و حکمت سے رغبت کا خصوصی رجحان نظر آتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ حکم ثانی نے تھوڑے ہی عرصے میں کتب کا اتنا وسیع ذخیرہ جمع کر لیا تھا جیسا عباسیوں نے ایک طویل عرصے میں اکٹھا کیا تھا۔ اس کے خصوصی کارندے اس کام کے لیے سلطنت کے گوشے گوشے کی خاک چھانتے پھرتے تھے تاکہ جہاں کہیں کسی مصنف کی کسی کتاب کی تکمیل کی خبر ہو، وہ اسے منہ مانگے داموں خرید کر خلیفہ کی خدمت میں پیش کر سکیں۔ اس کے علاوہ خلیفہ کے دربار میں ہر وقت دس ہزار خطاط مختلف کتب کی نقول میں مصروف رہتے تھے، مگر حکم ثانی کا جانشین ہشام ثانی نالائق ثابت ہوا۔

وہ بھی اندلس کے لوگوں کے عمومی رجحان کے مطابق اہل فلسفہ کو بے دین سمجھتا تھا ۔اس لیے اس نے حکم ثانی کے دور کی اکٹھی کی ہوئی کتابوں کو آگ لگوا دی۔ یہ ضرور ہے کہ کچھ کتب جلنے سے رہ گئیں۔ اس کے علاوہ وہ سرمست بھی تھے، جنہوں نے اس خزانے کو مخفی طور پر بچا لیا تھا۔ اس لیے جب بنو اُمیہ کی حکومت زوال پذیر ہوئی اور طوائف الملوکی پھیلی، تو یہ کتب باہر آئیں اور ردی کے بھائو عوام الناس کے ہاتھ لگیں۔ ردی کے بھائو فروخت ہونے والا یہ وہی خزانہ تھا، جس نے علم سے محبت رکھنے والے لوگوں کے گھر گھر پہنچ کر فلسفے کے چراغ کو دوبارہ روشن کیا۔

لوگوں کا فلسفیانہ ذوق بیدار ہوا۔ وہ سوچنے لگے اور اپنے آپ سے سوال کرنے لگے، اپنی اندر کی کائنات کے بارے میں اور اپنی باہر کی کائنات کے بارے میں اور ان سوال کرنے و الوں میں ایک وہ بھی پیدا ہوا، جسے تاریخ ابن باجہ کے نام سے جانتی ہے۔ ’’طبقات الاطبائ‘‘ اور ’’اخبار الحکمائ‘‘ کی روایت کے مطابق ابن باجہ کا اصل نام محمد، کنیت ابوبکر، باپ کا نام یحییٰ اور دادا کا نام صائغ ہے، لیکن ابن ِخلکان کی روایت کے مطابق اس کے باپ کا نام باجہ ہے۔ ابن ِ خلکان ہی کے مطابق وہ ابن ِ صائغ کے نام سے زیادہ مشہور تھا۔ ابھی اس کی تاریخ ولادت کا تو تعین نہیں ہو سکا، لیکن امام غزالی کا یہ نوعمر ہمعصر ابن سینا کی وفات کے قریباً سات آٹھ دہائیوں کے بعد اندلس کے مشہور شہر سرقسطہ میں پیدا ہوا۔ محمد لطفی جمعہ نے اس شہر کا نام اپنی کتاب ’’تاریخ فلاسفتہ الاسلام‘‘ میں سر قصہ لکھا ہے۔ کم عمری میں شہرت پانے والے اور جوانی ہی میں موت کے ذائقے سے آشنا ہونے والے اس فلسفی کے ابتدائی حالاتِ زندگی پر بہت کم معلومات ملتی ہیں۔ لگتا ہے اس نے سرقسطہ ہی میں ابتدائی تعلیم حاصل کی اور اپنی ذہانت کی شہرت اور مدحیہ قصائد لکھنے کے عوض وہاں کے رئیس ابوبکر بن ابراہیم صحراوی کے دربار میں وزارت حاصل کر لی۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ رئیس تو کم از کم علمی محبت کے ’’فیشن‘‘ میں ابن ِ باجہ کو پسند کرتا تھا، لیکن عوام نے، جو فلسفے کو کفریہ علم سمجھتے تھے، اس بات کو پسند نہیں کیا۔ فوجی حلقوں میں بھی اس چیز کو قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھا گیا۔ مولانا عبدالسلام ندوی نے تو اپنی کتاب ’’حکمائے اسلام‘‘ میں یہاں تک لکھا ہے کہ ابن ِ باجہ کی وزارت کے معاملے پر فوج میں شورش ہوئی اور ایک بہت بڑی جماعت ترکِ ملازمت کر کے اپنے گھروں کو چلی گئی۔ فوج کے اس انتشار کا فائدہ اُٹھا کر عیسائی حکمران الفانسو نے سرقسطہ پر حملہ کر کے اس پر قبضہ کر لیا، لیکن یہ بات زیادہ قرین قیاس نہیں لگتی۔ طوائف الملوکی کے آثار رکھنے والے شاندار اندلس پر شمال کے اُجڈ، لیکن دلیر عیسائیوں کی ہمیشہ سے نظر رہی تھی۔ فوجی کمزوری کے کسی مناسب موقع پر انہوں نے مہم جوئی کی اور سرقسطہ پر قبضہ کر لیا۔ ابوبکر بن ابراہیم صحراوی مارا گیا اور ابن ِ باجہ کو باقی مہاجرین کے ساتھ اشبیلیہ کی طرف ہجرت کرنا پڑی۔

وہ کچھ عرصہ غرناطہ میں بھی رہا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جب بنو اُمیہ کے زوال کے بعد اندلس خانہ جنگی کا شکار ہو کر خود مختار ریاستوں میں بٹ گیا اور ان ریاستوں کو عیسائیوں نے ایک ایک کر کے نگلنا شروع کیا، تو یہ مراکش میں دولت مرابطین کے نام سے نہایت طاقتور اسلامی حکومت قائم کرنے والا ایک بربر یوسف بن تاشقین تھا ،جو اندلسی مسلمانوں کی مدد کو آیا اور کچھ عرصے کے لیے عیسائیوں کے سامنے مضبوط ڈھال بن کر کھڑا ہو گیا۔ آخری دنوں میں ابن ِ باجہ ہمیں اسی یوسف بن تاشقین کی اولاد یعنی امرائے مرابطین کے دربار میں نظر آتا ہے۔ یہ تو ٹھیک ہے کہ خلیفہ حکم کے زمانے ہی سے اندلس میں فلسفے کی کتابیں جمع ہونا اور چھپنا شروع ہو گئی تھیں، لیکن ایک مدت تک ان سے حقیقی علمی فائدہ نہیں اُٹھایا جا سکا حتیٰ کہ اندلس میں علمی تاریخ کے پردے پر دو شخص نمودار ہوئے، ایک مالک بن وہب الاشبیلی اور دوسرے ابنِ باجہ، لیکن الاشبیلی موت سے ڈر گئے۔

انہوں نے اپنی زندگی کو فلسفے پر ترجیح دی۔ فلسفے کو چھوڑا اور اپنے آپ کو خالص دینی علوم کی ترویج کے لیے وقف کر دیا، لیکن وہ سرمست ابن ِ باجہ اسے اپنی زندگی سے اتنا پیار نہیں تھا، جتنا فلسفے سے۔ سو اس نے فلسفے کو اپنا اوڑھنا بچھونا کیا، تو ٹھیک ہے، اسے اس کی سزا بھی ملنا چاہیے تھی، جو اسے دی گئی اور وہ جوانی ہی میں اس عالمِ ناپائیدار سے رخصت ہوا، لیکن حریت فکر کی روایت کو ایک قدم اور آگے بڑھا گیا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ تاریخ نے اس کی عظمت کے اعتراف میں کنجوسی نہیں کی۔ اسے فلسفے کا امام بھی کہا گیا اور اندلس کا آخری فلسفی بھی۔ طبقات الاطباء کے مطابق وہ علوم حکمیہ میں علامہ وقت اور یگانۂ روزگار تھا۔ مورخ ابن سعید نے لکھا ہے کہ مغرب میں اس کو وہی درجہ حاصل تھا ،جو مشرق میں ابونصر فارابی کو حاصل تھا۔ 

قفطی نے اخبار الحکماء میں لکھا ہے: ’’وہ قدماء کے علوم کا عالم اور ادب و عربیت میں فاضل تھا۔ اس کے شہر میں اس کے ہمعصروں میں سے کوئی اس درجے کو نہیں پہنچا۔ اس نے ریاضی، منطق اور ہندسہ میں کتابیں لکھی ہیں اور ان کتابوں میں وہ قدماء سے آگے بڑھ گیا ہے‘‘۔ اگرچہ ابن ِ باجہ کی اکثر کتابیں ناپید ہیں، لیکن اسی ’’طبقات الاطبائ‘‘ میں اس کی کتابوں کی فہرست درج ہے۔ اس فہرست میں فلسفے کی تمام شاخوں طبیعیات، منطق ، ہیئت ، ہندسہ، الٰہیات اور سیاسی نظریات پر کتابیں موجود ہیں۔ سوائے سیاسی عمرانی نظریات کے، اندلس کے اس ابتدائی فلسفی نے اپنے فلسفیانہ خیالات کو ایک باقاعدہ نظام بنانے کی کبھی کوشش نہیں کی۔ اس کی تصانیف میں ارسطو اور دوسرے یونانی فلسفیوں کی شرحیں زیادہ ہیں اور طبع زاد کتابوں کی تعداد کم ہے۔ ان میں بھی اس کے خیالات بے ربط، منتشر اور نامکمل ہیں ،لیکن یہاں یہ بھی یاد رکھنے کی بات ہے کہ وہ اندلس کا پہلا باقاعدہ فلسفی ہے۔ اسے اپنی منزل معلوم تھی، لیکن ابھی اسے اپنا راستہ تلاش کرنا اور اسے صاف کرنا تھا، لیکن اس کی بے وقت موت نے اسے اپنا کام مکمل کرنے کی مہلت نہیں دی۔ 

Post a Comment

0 Comments