ابو علی احمد بن محمد ابن مسکویہ بہت بڑے ادیب، مؤرخ اور فلسفی گزرے ہیں۔مسلم فلسفہ پر ان کا زیادہ اثر اخلاقیات کے موضوع پر پڑا۔ اسلامی تاریخ میں اخلاقیات کے فلسفے پر انہوں نے ’’تہذیب الاخلاق‘‘ کے عنوان سے پہلی جامع کتاب لکھی۔ ان کی پیدائش غالباً 932ء کی ہے، مقام پیدائش رے ہے جو ان دنوں زیاریان سلطنت کے زیراثر تھا۔ وفات 1030ء میں اصفہان میں ہوئی۔ جوانی میں وہ وزیر الملہبی کے ملازم ہوئے۔ اس کی وفات کے بعد آل بویہ کے ایک وزیر کی ملازمت کی اور سات سال تک وزیر کے کتب خانہ کے خازن رہے۔ رومیوں نے جب رے پر حملہ کیا اور اسے تباہ و برباد کر دیا تو ابن مسکویہ نے کتب خانے کو بچائے رکھا۔
وزیر کی وفات کے بعد اس کے بیٹے اور پھر عضدالدولہ کے ہاں ملازمت کی۔ اس کے بعد آل بویہ کے دوسرے حکمرانوں کے ہاں بھی ملازم رہے۔ فلسفہ میں ابن مسکویہ فارابی اور اس کے ذریعہ ارسطو سے متاثر ہیں اور عام طور پر الکندی کے قریب ہیں۔ ان کی تصانیف ’’آداب العرب و الفرس‘‘ اور ’’تجارب الامم‘‘ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی نظر کافی گہری تھی اور وہ ایک آزاد خیال مفکر تھے۔ وہ تاریخ کا مطالعہ ایک فلسفی اور سائنس دان کی حیثیت سے کرتے تھے اور اس لیے انہیں واقعات سے زیادہ ان کے اسباب و علل سے دلچسپی تھی۔ وہ یہ جاننے کی کوشش کرتے تھے کہ جو افراد قوموں کی زندگی اورعروج و زوال میں حصہ لیتے ہیں، ان کے اعمال اور افعال کے محرکات کیا ہیں؟
کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے تو کیوں؟ ان کے نزدیک تاریخ کا تعلق اگرچہ ماضی سے ہے لیکن اس میں مستقبل کے لیے بھی ایک سبق ہے جس سے افراد ان غلطیوں سے بچ سکتے ہیں جن سے ماضی میں لوگ ناکامی اور زوال کا شکار بنے۔ ان کے نزدیک تاریخ عبارت ہے، اس مسلسل حرکت سے جس میں اس کے جملہ حوادث ایک دوسرے کے ساتھ مربوط اور ایک دوسرے پر منحصر ہوتے ہیں۔ تاریخ ذاتِ انسانی کی ترجمان اور اس کے ارادوں اور آرزوؤں کا مظہر ہے۔ لہٰذا نفس انسانی ہی اس حرکت کا اصل سرچشمہ ہے جس کا مطالعہ ایک طرح سے نفسِ انسانی کا مطالعہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ تاریخ کی بنیاد حقائق پر ہے، معجزوں اور افسانوں پر نہیں۔ وہ حقائق کے ادراک کا ایک ذریعہ ہے۔
ابن مسکویہ نے تاریخ کے عمل کا ایک جدلی تصور قائم کیا ہے لیکن یہ جدلی عمل مادی قوتوں کے بجائے انسانوں کی رائے، خیالات و نظریات، ارادوں اور مقاصد سے متعلق ہے۔ ان کے نزدیک تاریخ کے کوئی مقررہ اور معینہ ادوار نہیں ہیں۔ ہر دور کی اپنی ایک روح ہے جس کے ماتحت اخلاق، سیاست یا معاشرت ایک مخصوص رنگ اختیار کر لیتی ہے۔ تاریخ پر ان کی کتابوں میں تجارب الامم بہت مشہور ہے۔ یہ ایک عمومی تاریخ ہے جسے طوفانِ نوح سے شروع کر کے 319ھ (931ئ) پر ختم کیا گیا ہے۔ تاریخ کے علاوہ ابن مسکویہ نے اخلاق پر بھی کئی کتابیں لکھیں۔ ان میں تہذیب الاخلاق و تطہیر الاعراق، ’’کتاب آداب العرب والفرس و دیگر مشہور ہیں۔
ان کے نزدیک نفس ایک ایسا جوہر ہے جسے نہ جسم کہا جا سکتا ہے اورنہ جسم کا کوئی حصہ اور جس کا ادراک حواس کے ذریعہ ناممکن ہے۔ اسے ایسی معرفتیں حاصل ہیں جو حواس کو حاصل نہیں۔ نفس ایک وحدت ہے لہٰذا اس میں عقل اور معقول ایک ہو جاتے ہیں۔ انسان، عقل ہی کی بدولت حیوانات سے ممتاز ہے اوراعمال حسنہ کی طرف راغب ہے۔ ان کے نزدیک ہر ہستی کے اندر ایک شوق پوشیدہ ہے جو اسے مجبور کرتا ہے کہ اپنے کمال کی طرف حرکت کرے۔ یہی حرکت خیر و فضیلت ہے۔ انسان کا کمال انسانیت میں ہے اور اس لیے ہر فرد کا یہ فرض ہے کہ اسے حاصل کرے لیکن اس مرتبہ پر پہنچنے کی استعداد سب میں یکساں نہیں ہوتی۔ چند ہستیاں برگزیدہ ہوتی ہیں جو فطرتاً خیر کی طرف جاتی ہیں اور چند اشرار کی جو فطرتاً شر کی طرف جاتی ہیں۔ لیکن بڑی اکثریت ان کے بین بین ہوتی ہے جو تربیت کے ذریعہ خیر یا شر کی طرف جاتی ہے۔
0 Comments