Science

6/recent/ticker-posts

احمد کثیر فرغانی : ماہر ہیئت و ریاضی دان

اس نامور سائنس دان کا پورا نام ابوعباس احمد بن محمد بن کثیر فرغانی تھا۔ وہ ترکستان کے شہر فرغانہ میں پیدا ہوئے۔ مغلیہ سلطنت کے پہلے بادشاہ بابر بھی اسی فرغانہ کے رہنے والے تھے۔ احمد کثیر فرغانی کا شمار عہد مامونی کے نامور ماہرین ہیئت و ریاضی میں ہوتا ہے۔ انہوں نے ہیئت میں اپنے مشاہدات کو ایک کتاب میں قلم بند کیا تھا اور اس کا نام جوامع علم النجوم رکھا تھا۔ اس کتاب کا لاطینی ترجمہ پہلی بار بارہویں صدی میں ہوا تھا اور یہ ان چند کتابوں میں سے تھی جن کا اہل یورپ پر بہت اثر تھا۔ سولہویں صدی میں اس کتاب کا لاطینی ترجمہ دوسری بار جرمنی کے شہر نوم برگ سے اور پھر فرانس کے شہر پیرس سے شائع ہوا۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ازمنہ وسطیٰ میں یہ کتاب کس قدر مقبول تھی۔

احمد کثیر دھوپ گھڑی کی ایک ترقی یافتہ قسم کے موجد تھے، نیز انہوں نے دریا کی طغیانی ناپنے کا آلہ بھی ایجاد کیا تھا۔ لیکن ان کا سب سے بڑا کارنامہ کرۂ ارض کے گھیر کی پیمائش ہے جسے انہوں نے مامون کے حکم سے دیگر سانس دانوں کے ساتھ سرانجام دیا تھا۔ مامون الرشید نے ہیئت دانوں کی ایک جماعت کو، جس میں بنو موسیٰ پیش پیش تھے، حکم دیا کہ وہ زمین کے گھیر کی پیمائش کرے۔ احمد کثیر فرغانی بنو موسیٰ کے متوسلین میں سے تھے، اس لیے وہ بھی ہیئت دانوں کے اس گروہ میں شامل ہو گئے۔ ان کا طریقہ کار یہ تھا کہ اصطرلاب اور سدس (Sextant) جیسے آلات سے کسی وسیع میدان کے ایک سرے پر قطبی ستارے کی بلندی کے زاویے سے اسے معلوم کیا جائے۔

فرض کیجیے کہ ایک خاص مقام پر قطبی ستارے کی بلندی 32 درجے کی ہے۔ اب ہیئت دان سیدھے شمال کی طرف چلیں اور انہی آلات کی مدد سے تھوڑے تھوڑے فاصلے پر قطب ستارے کی بلندی معلوم کرتے جائیں۔ یہ بلندی 32 درجے سے بڑھتی جائے گی، آخر کار ایک مقام ایسا آئے گا جہاں یہ بلندی پوری 33 درجے ہو جائے گی۔ اب پہلے مقام سے جہاں یہ بلندی ٹھیک 32 درجے تھی، دوسرے مقام کا فاصلہ جہاں بلندی ٹھیک 33 درجے ہے، میلوں میں ناپیں۔ یہ کرۂ ارض کی ایک ڈگری یعنی 360 ویں حصے کی پیمائش ہو گی۔ اس کو 360 کے ساتھ ضرب دینے سے کرۂ ارض کا پورا گھیر نکل آئے گا۔

زمین کا گھیر ناپنے کا یہ قاعدہ اگرچہ قدیم زمانے سے معلوم تھا لیکن اس کے ذریعے صحیح پیمائش معلوم کرنے کے لیے یہ ضروری تھا کہ جو آلات پیمائش مثلاً اصطرلاب اور سدس اس مقصد کے لیے استعمال کیے جائیں وہ انتہائی درجے تک صحیح ہوں۔ سطح زمین پر شمال کی طرف جاتے ہوئے قریباً 30 میل کی مسافت طے کرنے کے بعد قطبی ستارے کے زاویے میں محض نصف ڈگری کا فرق پڑتا ہے، اس لیے اگر اس نصف ڈگری کی پیمائش میں تھوڑی سی غلطی ہو جائے تو پورے کرے کے گھیر میں کئی ہزار میل کا فرق پڑ سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قدیم زمانے میں اگرچہ اہل یونان اور اہل ہند نے زمین کے گھیر کو اسی طریقے سے ناپنے کی کوشش کی تھی، لیکن چونکہ ان کے اصطرلاب وغیرہ اعلیٰ قسم کے نہ تھے اس لیے ان کی پیمائش اصل سے بہت زیادہ غلط نکلی تھی، لیکن مامونی دور کے ہیئت دانوں نے کرۂ ارض کے محیط کی جو قیمت نکالی وہ موجودہ زمانے کی قیمت سے حیرت انگیز طور پر مطابقت رکھتی ہے۔

اہل مامون کے نامور مسلم سائنس دانوں نے کرۂ ارض کے محیط کی پیمائش میں جو کمال دکھایا اس کی نظیر آنے والی کئی صدیوں تک نہیں ملتی۔ عہد مامونی کے ہیئت دانوں نے ایک ڈگری کے فاصلے کی پیمائش کرنے کے لیے جس وسیع میدان کو چنا وہ کوفہ کے شمال میں تھا اور سنجار کہلاتا تھا۔ مشاہدات کے لیے بہترین قسم کے اصطرلابوں اور سدسوں سے کام لیا گیا تھا جن میں ڈگریوں سے نیچے تک کی پیمائش کی جا سکتی تھی۔ اس کام کے لیے سائنس دانوں کا ایک بڑا عملہ مصروف کار تھا جس میں بنو موسیٰ یعنی موسیٰ بن شاکر کے تین بیٹوں محمد بن موسیٰ، احمد بن موسیٰ اور حسن بن موسیٰ کے علاوہ علی ابن عیسیٰ اصطرلابی، خالد بن عبدالمالک المروروزی اور احمد بن محمد بن کثیر فرغانی پیش پیش تھے۔

انہوں نے پہلے کرۂ ارض کے ایک جزو یعنی 360 ویں حصے کی پیمائش کی اور پھر اس سے زمین کے کل گھیر کا حساب لگایا۔ عباسی دور کے ان نامور مساحوں کے اس شان دار کارنامے کا ذکر مولانا حالیؔ نے اپنی مسدس میں یوں کیا ہے: وہ سنجار کا اور وہ کوفہ کا میداں فراہم ہوئے جس میں مساحِ دوراں کرہ کی مساحت کے پھیلائے ساماں ہوئی جزو سے قدر کل کی نمایاں زمانہ وہاں آج تک نوحہ گر ہے کہ عباسیوں کی سبھا وہ کدھر ہے.

حمید عسکری




Post a Comment

0 Comments