مسعودی، جن کا نام ابوالحسن علی تھا، ایک بلند پایہ مؤرخ، جغرافیہ نویس اور سیاح کی حیثیت سے مشہور ہیں۔ انہوں نے اپنی عمر کے 25 برس سیرو سیاحت میں بسر کیے۔ انہوں نے اپنے وطن بغداد سے سفر شروع کیا اور عراق، شام، آرمینیا، روم (ایشیائے کوچک)، افریقہ، سوڈان، زنجبار کے علاوہ چین، تبت، ہندوستان اور سراندیب (سری لنکا) کا سفر کیا۔ انہوں نے ہندوستان، چین، عرب، حبش، فارس اور روم کے دریاؤں کی سیر کی۔ ان کی متعدد ضخیم کتابوں میں سے چند تاریخی کتابیں موجود ہیں، ایک کتاب التنبیہ و الشراف ہے، جو مختصر ہے۔ دوسری اس سے بڑی ہے۔
اس کا نام ’’مروج الذہب و معادن الجوہر‘‘ ہے۔ یہ دوسری کتاب زیادہ معلومات فراہم کرتی ہے۔ یہ گویا اسلام کی تاریخ ہے۔ مگر اس کے مقدمہ میں تمام دنیا کی قوموں کی اجمالی تاریخ ہے جس میں ہندوستان بھی ہے۔ انہوں نے دریاؤں کے حالات بہت مفصل لکھے ہیں۔ ان کے بیان سے یہ عجیب بات معلوم ہوتی ہے کہ جس طرح آج جہاز راں کمپنیوں اور اس کے جہازوں کے نام ہوتے ہیں، اسی طرح جہازوں کے مالکوں کی نسبت سے بھائیوں اور بیٹوں… اینڈ برادرز، اینڈ سنز کے طریقہ سے ان جہازوں کے نام بھی رکھے جاتے تھے جو بحرہند میں آتے جاتے تھے۔ انہوں نے سب سے پہلے دریائے رائد (راوی) اور ’’گنگ‘‘ کا اور پنجاب کے پانچوں دریاؤں کا بار بار نام لیا ہے، اور یہ بتایا ہے کہ ان میں سے ہر ایک کہاں کہاں سے نکلتا ہے۔
انہوں نے لکھا ہے کہ ’’تبت کے پہاڑوں سے زیادہ بڑے پہاڑ نہیں دیکھے۔‘‘ ان پہاڑوں سے ظاہر ہے کہ کوہ ہمالیہ مراد ہے۔ یہ بھی لکھا ہے کہ ’’ہندوستان میں بہت سی بولیاں بولی جاتی ہیں۔‘‘ عجیب بات یہ ہے کہ انہوں نے قندھار کو درہبوط (راجپوتوں) کا ملک بتایا ہے۔ کھنبایت میں وہ 303ھ میں پہنچے تھے۔ یہ اس وقت کے راجہ ولبھ رائے کے ماتحت ایک برہمن کے زیرحکومت تھا۔ وہ ملتان 300ھ کے بعد اپنا پہنچنا ظاہر کرتے ہیں اور وہاں کے مسلمان عرب بادشاہ اور وزرا کے نام بتاتے ہیں۔ مسعودی نے اپنی کتاب مروج الذہب 332ھ میں سیر و سیاحت ختم کرنے کے بعد لکھی۔
0 Comments