بحیرہ کیسپین کے ساتھ جنوب میں ایران کا علاقہ طبرستان کے نام سے موسوم کیا جاتا تھا۔ یہ ایک مردم خیز خطہ اور عالم اسلام کی متعدد ایسی شخصیتوں کا مرزبوم رہا جو آسمانِ علم پر ستارہ بن کر چمکی ہیں اور جو آج بھی دنیائے علم کو اپنے نور سے منور کر رہی ہیں۔ انہی شخصیتوں میں سے ایک کا نام علی بن ربن ہے۔ وہ پہلے یہودی مذہب رکھتے تھے لیکن بعد میں اس نے اسلام قبول کر لیا۔ اس لیے اس کا شمار مسلم دانشوروں میں ہوتا ہے۔ اس کے والد کا نام سہل اور لقب ربن تھا۔ سہل ربن کے نام ور فرزند علی بن ربن کا پورا نام ابوالحسن علی بن سہل ربن طبری تھا۔ اس کی ولادت 775ء کے لگ بھگ ہوئی۔ یہ وہ عرصہ تھا جس میں خلیفہ منصور نے وفات پائی اور مہدی تخت خلافت پر بیٹھا۔
علی بن ربن کی زندگی کا ابتدائی زمانہ مرو ہی میں گزرا جہاں اس نے اپنے فاضل باپ سے طب اور فنِ کتابت کی تعلیم پائی اور ان دونوں میں یدطولیٰ حاصل کیا۔ علاوہ ازیں اس نے سریانی اور یونانی زبانوں میں بھی مہارت حاصل کی۔ اس کا ثبوت ہمیں اس کی تصانیف سے ملتا ہے جن میں اس نے بعض مقامات پر یونانی اور سریانی کتابوں کی اصل عبارتیں نقل کر کے ان پر بحث کی ہے۔ علی بن ربن کے زمانے میں اس کے وطن طبرستان کی حیثیت سلطنت کے اندر ایک باج گزار ریاست کی تھی جس کا والی ایک ایرانی شہزادہ مازیار بن قارن تھا۔
مازیار اگرچہ مشرف بہ اسلام ہو چکا تھا لیکن اس کے دل میں قدیم ایرانی سلطنت کے سقوط کا غم تھا اور وہ دل سے چاہتا تھا کہ طبرستان پر سلطنتِ عباسی کی بالا دستی قائم نہ رہے اور وہ ایک آزاد ایرانی ریاست بن جائے جو قدیم ساسانی سلطنت کی قائم مقام ہو۔ اس نے اس خواہش کی تکمیل کی دو مرتبہ کوشش کی۔ پہلی دفعہ اس نے مامون الرشید کے زمانے میں بغداد کی مرکزی حکومت کو خراج دینا بند کر دیا اور اپنی ریاست کی آزادی کا اعلان کر کے خلافت کے خلاف علم بغاوت بلند کیا۔ علی بن ربن نے اس موقع پر مازیار کو سمجھایا کہ اسے اس بغاوت میں کامیابی نہیں ہو سکتی۔ علی بن ربن کا خیال درست نکلا۔ چنانچہ اس نے علی بن ربن کو بلا کر، جس کی اصابت رائے اب مسلم ہو چکی تھی، اس بات پر مامور کیا کہ وہ مامون الرشید کے دربار میں جائے اور مازیار کی خطاؤں کو معاف کروائے۔
علی بن ربن نے اس مشکل کام کو اتنی خوش اسلوبی سے سرانجام دیا کہ مامون الرشید نے نہ صرف مازیار کے جرم کو معاف کر دیا بلکہ اسے دوبارہ طبرستان کا والی مقرر کر دیا۔ اس کامیابی پر مازیارنے علی بن ربن کو اپنا وزیر سلطنت بنا لیا۔ جب مامون الرشید کی وفات کے بعد اس کا بھائی معتصم تختِ خلافت پر بیٹھا تو مازیار نے دوبارہ علمِ بغاوت بلند کر کے اپنی بادشاہت کا اعلان کر دیا، مگر معتصم کی افواج سے شکست کھائی۔ اسے گرفتار کر کے معتصم کے حوالے کر دیا گیاجس نے اس کو قتل کروا دیا۔ چنانچہ علی بن ربن نے رے میں سکونت اختیار کر کے وہاں مطب شروع کر دیا۔ یہاں اس کی ملاقات زکریا رازی سے ہوئی جو رے کا رہنے والا تھا۔
زکریا رازی نے طب کی تعلیم ابتدا میں علی بن ربن سے حاصل کی، مگر بعد میں اپنے تجربے اور مشاہدے سے اس فن میں اتنا کمال پیدا کیا کہ اس کے زمانے میں اطبا میں کوئی اس کا ہم سر نہ تھا، لیکن علی بن ربن کا طرۂ امتیاز صرف یہی امر نہیں کہ وہ اسلامی دور کے طبیب اعظم زکریا رازی کا استاد تھا بلکہ اس کی حقیقی شہرت اور عظمت کا باعث یہ ہے کہ وہ عربی زبان کے پہلے طبی انسائیکلوپیڈیا کا مصنف تھا۔ اس کی یہ نادر تصنیف جس کا نام اس نے فردوس الحکمت رکھا تھا، طب کی تمام شاخوں پر حاوی تھی اور یہ کتاب اس کے عمر بھر کے تجربے اور مطالعے کا نچوڑ تھی۔ فردوس الحکمت اگرچہ اس نے عربی زبان میں لکھی تھی لیکن وہ ساتھ ساتھ اس کا ترجمہ سریانی زبان میں بھی کرتا جاتا تھا جس سے اس کتاب کا ایک سریانی ایڈیشن بھی مرتب ہو گیا تھا۔
فردوس الحکمت کے علاوہ علی بن ربن کے قلم سے متعدد اور کتابیں بھی نکلیں جن میں دو کتابیں دین و دولت اور حفظ صحت دست برد زمانہ سے محفوظ رہیں۔ ان کتابوں کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ علی بن ربن کو نہ صرف متداول علوم مثلاً طب، فلسفہ، ریاضی، ہیئت پر عبور تھا بلکہ تحقیق اور نقد و نظر میں بھی اس کا پایہ بلند تھا۔ علاوہ ازیں اسے یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں کے مذہبی لٹریچر سے واقفیت حاصل تھی۔ وہ علمی اور فنی مسائل پر گہری نظر رکھتا تھا اور انہیں ایسے پیرائے میں بیان کرتا جس سے ان کی پیچیدگیاں دور ہو جاتیں اور قاری کے لیے انہیں سمجھنا آسان ہو جاتا۔ علی بن ربن کی کتاب فردوس الحکمت ایک ضخیم کتاب ہے۔
اس کا بیش تر حصہ اگرچہ طب ہی سے متعلق ہے مگر اس میں ضمناً موسمیات، حیوانات، علم تولید، نفسیات اور فلکیات پر بھی مقامات شامل ہیں۔ طب میں فاضل مصنف نے اپنے زمانے تک کے تمام یونانی اور عربی لٹریچر سے، جو اس موضوع پر اسے مل سکا، اخذ و انتخاب کا کام لیا ہے اور اس کے ساتھ اپنی ذاتی تحقیقات کو بھی شامل کیا ہے۔ فردوس الحکمت کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس کا آخری حصہ طب ہندی یعنی آیورویدک پر مشتمل ہے جس کے اہم مقالات علی بن ربن کی بدولت پہلی بار عربی زبان میں منتقل ہوئے ہیں۔ علی بن ربن کا انتقال 870ء کے لگ بھگ ہوا۔
0 Comments