Science

6/recent/ticker-posts

ابنِ یونس ماھر فلکیات اور ریاضی دان

دسویں صدی کے ابتدائی برسوں میں شمالی افریقہ کے اس علاقے میں جو المغرب کے نام سے موسوم تھا اور جس میں تیونس، لیبیا، الجزائر اور مراکش شامل تھے، فاطمی خلافت قائم ہو چکی تھی۔ اس کا پہلا خلیفہ عبیداللہ المہدی تھا۔ جب اس نے وفات پائی تو اس کا بیٹا قائم اس کا جانشین ہوا۔ قائم کے زمانے میں اس کی سلطنت کے اندر وسیع پیمانے پر بغاوت ہوئی۔ چنانچہ اس کا سارا زمانۂ حکومت باغیوں کے ساتھ جنگیں لڑتے گزرا۔ یہاں تک کہ اسے موت کا بلاوا آ گیا۔ مگر جب اس کے مرنے کے بعد اس کا بیٹا منصور تخت پر بیٹھا تو اس نے اپنے تدبر اور شجاعت سے باغیوں پر نصرت حاصل کی اور ان کا قلع قمع کر کے سلطنت کو مستحکم بنیادوں پر استوار کر دیا۔

منصور نے جب دسویں صدی کے وسط میں وفات پائی اور زمامِ حکومت اس کے بیٹے معز کو مل گئی، تب فاطمی سلطنت کا زریں دور شروع ہوا جو معز کے جانشین عزیز کے عہد حکومت تک پوری آب و تاب سے قائم رہا۔ معز کے عہد میں مصر بھی دولت فاطمیہ کے زیرنگیں آ گیا اور معز نے قاہرہ کے مشہور شہر کی بنیاد رکھی جو آج تک کے عہد میں مصر کا دارالحکومت ہے۔ لیکن اس سے بھی زیادہ شاندار کام جو معز کے ہاتھوں سرانجام پایا، وہ بیت الحکمت، یعنی سائنس اکادمی کا قیام تھا۔ اس نے مامون الرشید کی یاد تازہ کر دی تھی۔ اس لیے مؤرخ معز کو ’’المغرب کا مامون الرشید‘‘ بھی کہتے ہیں۔

یہ سائنس اکادمی معز کے جانشین عزیز اور عزیز کے جانشین حاکم کے زمانہ ہائے خلافت میں پورے جوش و خروش کے ساتھ سرگرم عمل رہی۔ اس دور میں جن دانشوروں نے اپنی علمی تحقیق سے شہرت دوام حاصل کی ان میں ابوالحسن علی بن ابو سعید عبدالرحمان بن احمد بن یونس المصری کا نام سرفہرست ہے۔ سائنس اکادمی کے سلسلے میں خلیفہ معز کے حکم سے قاہرہ میں ایک اعلیٰ پائے کی رصد گاہ قائم کی گئی تھی جسے خلیفہ عزیز نے وسعت دی اور ماہرینِ ہیئت کی ایک جماعت کو اس میں ملازم رکھا۔ ابن یونس اس جماعت کا افسراعلیٰ تھا۔ رصد گاہِ قاہرہ میں ابن یونس نے خلیفہ عزیز کے زمانے میں ہیئت کے مشاہدات کا ایک طویل سلسلہ شروع کیا جس کی تکمیل حاکم کے عہد میں ہوئی۔ 

ان مشاہدات کی بنا پر اس نے ہیئت کی ایک قابل قدر کتاب تصنیف کی اور خلیفہ حاکم کے انتساب سے اس کا نام ’’زیج الحاکمی‘‘ رکھا۔ اس کتاب کا شہرہ چین تک پہنچا، چنانچہ تیرہویں صدی میں ایک چینی ہیئت دان کوچیو کنگ نے اسے چینی زبان میں ترجمہ کیا۔ ابن یونس نے اپنے مشاہدات فلکی سے جو نتائج استخراج کیے وہ حیرت انگیز طور پر موجودہ زمانے کی تحقیقات سے مطابقت رکھتے ہیں۔ مثلاً انحرافِ دائرۃ البروج (Inclination of the ecliptic) کی ’’قیمت‘‘ ابن یونس نے جو نکالی، موجودہ زمانے کی دریافت کردہ ’’قیمت‘‘ بھی اس سے مطابقت رکھتی ہے۔ فلکیات کے بارے میں اس کے اخذ کردہ متعدد نتائج دور حاضر کے نتائج سے مطابقت رکھتے ہیں۔

زمین کا محور بظاہر دیکھنے میں تو ساکن معلوم ہوتا ہے، مگر حقیقت میں یہ ساکن نہیں ہے، بلکہ آہستہ آہستہ اپنی جگہ سے کھسکتا رہتا ہے اور ایک گول چکر کاٹتا رہتا ہے البتہ یہ حرکت اتنی مدھم ہوتی ہے کہ انہتر سال کے بعد اس میں صر ف ایک ڈگری کا فرق پڑتا ہے اور 360 ڈگریوں کی مکمل گردش چھبیس ہزار سال میں جا کر پوری ہوتی ہے۔ یہ اتنی چھوٹی پیمائش ہے کہ اسے صحیح طور پر معلوم کر لینا ہیئت دانی کا کمال ہے۔ ابن یونس نے زیج الحاکمی میں اس کی جو قیمت بیان کی ہے اس میں اور موجودہ زمانے کی صحیح قیمت میں برائے نام فرق ہے۔ ٹرگنو میٹری میں بھی ابن یونس کی تحقیقات بہت قابل قدر ہیں۔ ابن یونس کا انتقال 1009ء میں ہوا۔

مید عسکری

Post a Comment

0 Comments