کہا جاتا ہے کہ یورپ نے فلکیات کی مشعل مسلمانوں سے حاصل کی اور مغربی دنیا کو منور کر دیا لیکن یہ اعتراف کرنے میں بخل سے کام لیا کہ علم کی یہ روشنی کہا ں سے آئی؟ اس حقیقت کا اعتراف دنیا کے مشہور دانشوروں نے اپنے اپنے طور پر کیا ہے کہ مسلمان سائنسدانوں نے ہی مشاہداتی تجربات اور تحقیقات کی بنیاد ڈالی۔ ہٹی نے اپنی کتاب ’ میں لکھا ہے کہ قرونِ وسطیٰ میں کسی قوم نے انسانی ترقی میں اتنا حصہ نہیں لیا جتنا کہ مسلمانوں نے۔
پرمن ہنری نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ اسلام نے کرۂ ارض کی شکل ہی بدل دی۔ اب سوال یہ ہے کہ پھر تمام فلکیاتی ترقیاں یورپ سے منسوب کیوں کر ہیں؟ یورپ میں اسلامی فلکیاتی ذخیرہ در اصل بغداد کی بیت الحکمہ نام کی انجمن کی وساطت سے پہنچا۔اس انجمن کوعباسی خلافت کے دور میں قائم کیاگیا تھا اور اس میں عربوں کی تصنیف شدہ کتابیں مختلف زبانوں لاطینی یونانی وغیرہ میں منتقل کی جاتی تھیں شاید اس کام کا مقصد یورپ میں بھی اپنا نام روشن کرنا تھا لیکن ہوا یہ کہ سب گمنامی کے اندھیروں میں کھو گئے اور اہل یورپ نے ان سے استفادہ کر کے تمام دنیا کو منور کرنے کا اعزاز حاصل کیا۔
جب مسلمان ماہرین فلکیات کی کتابیں یورپ پہنچیں تو انہوں نے ان کے مصنفین کے ناموں میں تبدیلی کر کے انہیں یورپی انداز میں ڈھال کر پیش کیا۔مثلاً ابن رشد بو علی سینا اور موسی بن میمون کو لکھا گیا۔ اسی طرح کئی اور ناموں میں بھی تبدیلی کر دی گئی۔ اس سے لوگوں میں یہ تبدیل شدہ نام مشہور ہوئے۔
درحقیقت اہل یورپ کی یہ ایک سوچی سمجھی سازش ہی تھی کہ دنیائے سائنس کو مسلمانوں کی خدمات کے علاوہ ان کے ناموں سے بھی دور رکھا جائے۔ ان کی یہ کوشش کافی حد تک کامیاب بھی رہی لیکن ایسے سینکڑوں تاریخی حوالے دستیاب ہوئے ہیں جو یہ تصدیق کرتے ہیں کہ بلاشبہ عرب مسلمانوں کے ذریعے ہی سائنس اور فلکیات کے شعبوں میں علمی سیلاب آیا اور ساری دنیا میں پھیل گیا۔ آج کا جدید علمِ فلکیات بھی در اصل مسلمانوں کی تعمیر کردہ اسی بنیاد پر منحصر ہے۔
مسلمان فلکیاتی ماہرین کی خدمات کا تعارف اس طرح ہے: 776ء میں ابراہیم بن جندب نے سب سے پہلے عجائب الفلک کے مشاہدے کے لئے دوربین ایجاد کی تھی۔ دنیا کا پہلا ماہر فلکیات احمد بن سجستانی تھا جس نے زمین کی گردش کا نظر یہ پیش کیا تھا۔ جابر بنانی (وفات 817ء) نے سورج کی گزرگاہ کا جھکاؤ ساڑھے ت23 درجہ کی جگہ 23 درجہ35منٹ دریافت کیا تھا۔ احمد کثیر الفرغانی (وفات903ء) نے اپنے طریقہ سے زمین کی محیط کی پیمائش معلوم کی تھی جو مسلمہ محیط سے بہت قریب ہے۔
ابن یونس صوفی (وفات 1037ء) نے اپنی کتاب ’’الشفاء‘‘ میں حرکت کا قانون بیان کیا ہے۔ ماہر علمِ فلکیات أبو الوفا بوزجانی (وفات 1011ء) نے ثابت کیا کہ سورج میں کشش ہوتی ہے۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ چاند کی گردش زمین کے گرد ہوتی ہے اور سورج کی کشش سے اس کی گردش میں خلل پڑ جاتا ہے جسے چاند کا گھٹنا اور بڑھنا کہا جاتاہے۔ اس دریافت کو سولہویں صدی کے سائنسدان ٹائکو براہی سے منسوب کردیا گیا۔ علمِ فلکیات کا ماہر اور جغرافیہ دان ابو ریحان البرونی نے زمین کی محیط کی پیمائش معلوم کی تھی۔
البیرونی نے سورج کے مشاہدے کے بعد ارض البلد اور طول البلد معلوم کرنے کا طریقہ دریافت کیا تھا۔ البرونی نے زمین کی محوری گردش بھی دریافت کی۔ عمر خیام کو لوگ فلسفی اور شاعر کی حیثیت سے جانتے ہیں۔ لیکن علم ہیئت میں اس کے ماہر ہونے کو کم لوگ ہی جانتے ہیں۔ اس نے شمسی سال کی جو تعداد معلوم
کی، وہ دور جدید کے علماء کی تحقیق سے پوری طرح مطابقت رکھتی ہے۔ صرف48 سیکنڈ کا فرق ملتا ہے۔ خیام نے شمسی سال365 دن پانچ گھنٹے 49 منٹ کا حساب کیا۔ اور جدید تحقیق کے مطابق 365 دن پانچ گھنٹے 49 منٹ اور 48 سیکنڈ کا ہوتا ہے۔ محمد بن محمد ادریس دنیا کا سب سے پہلا عظیم جغرافیہ دان ہے جس نے اپنی مشہور و معروف تصنیف ’’نذھت المشتاق فی احتراق الافاق‘‘ میں پہلی بار دنیا کے گول ہونے کی بات لکھی تھی۔
عبد الرحمن خازن نے انکشاف کیا کہ جب کوئی چیز زمین پر گرتی ہے تو ہوا میں اس کا وزن کم ہو جاتا ہے۔پانی میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ زمین کے چاروں طرف ہوا کا غلاف اس لئے ہے کہ زمین اس کو اپنی طرف کھنچتی ہے چنانچہ زمین سے جس قدر بلندی پرجاتے ہیں ‘ہوا کم ہوتی جاتی ہے۔ قزدینی (وفات1283ء ) نے زمین کے اپنے محور پر سورج کے اطراف میں گھومنے اور اس کی وجہ سے موسم بدلنے کا انکشاف کیا۔ قزدینی نے یہ بھی کہا کہ چاند زمین اور سورج کے ارد گرد گھوم رہا ہے۔
اس نے دعویٰ کہا کہ سورج از خود بھی حرکت میں ہے۔ ان کے علاوہ کچھ ایسی بھی دریافتیں ہوئی ہیں جن کا تاریخی پس منظر ہمارے سامنے نہیں ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کی کھوج کی جائے تاکہ ان عظیم ماہرین کو ان کا واجب حق حاصل ہو سکے۔ ذیل میں مسلمانوں کی فلکیاتی تحقیقات کا خلاصہ یہ ہے: (۱) اجرام سمادی کی حرکات کی زیجوں کا مرتب کرنا۔ (۲) سب سے پہلے سال کی درست مدت کا تعین کرنا۔ (۳)چاند کے زیادہ سے زیادہ ارتفاع کا اختلاف دریافت کرنا۔ (۴) استقبال معدل النہار کا ٹھیک معلوم کرنا۔
(کتاب ’’آئینہ فلکیات‘‘ سے اقتباس)
انجینئر محمد فرقان سنبھلی
0 Comments