Science

6/recent/ticker-posts

اگر شمسی طوفان آ گیا تو زمین پر کیا اثر پڑے گا ؟

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ سورج پر اگر کبھی شدید طوفان آئے تو وہ زمین پر مواصلاتی نظام کو تباہ کر سکتا ہے جس کی ہمیں بہت بڑی معاشی قیمت ادا کرنی پڑ سکتی ہے۔ شمسی طوفان سے اس قدر خطرہ کیوں ہے؟ 1972 میں ویتنام کے ساحل کے قریب درجنوں سمندری بارودی سرنگیں بظاہر بلاوجہ پھٹ گئی تھیں۔
حال ہی میں اس بات کی تصدیق ہوئی ہے کہ یہ شمسی طوفان کی وجہ سے ہوا تھا۔ شمسی طوفان زمین کے مقناطیسی میدان میں خلل ڈال سکتے ہیں۔ مگر آج کے دور میں اس طرز کے واقعے کے زیادہ سنگین نتائج سامنے آ سکتے ہیں، جیسے کہ سیٹلائٹوں سے لے کر بجلی کی ترسیل کے نظام تک ہمارے روز مرہ سسٹمز میں خرابی پیدا ہو جانا۔ ایک اندازے کے مطابق ایسے واقعے کی صرف برطانیہ میں قیمت 16 ارب پاؤنڈ ہو سکتی ہے۔ دنیا سے لاکھوں میل دور ہونے والے یہ واقعات ہمیں کیوں متاثر کرتے ہیں اس کی کئی وجوہات ہیں۔

انتہائی شدید شمسی طوفان کیوں آتے ہیں؟
سورج ایک ستارہ ہے، برقی ہائیڈروجن کا ایک ابلتا ہوا انبار۔ جب یہ مادہ حرکت کرتا ہے، تو اپنی انتہائی پیچیدہ مقناطیسی فیلڈ میں توانائی بھی جمع کرتا جاتا ہے۔
یہ مقناطیسی توانائی روشنی کی شدید چمک یا شمسی شعلوں کی صورت میں اور بڑی مادی اور مقناطیسی فیلڈز کی شکل میں خارج ہوتی ہے جنہیں شمسی طوفان کہا جاتا ہے۔ اگرچہ یہ شعلے زمین پر ریڈیو کے مواصلاتی نظام کو درہم برہم کرتے ہیں، لیکن شمسی طوفان سے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ ہر شمسی طوفان میں دنیا کے تمام جوہری ہتھیاروں کے مجموعے سے ایک لاکھ گنا زیادہ توانائی ہوتی ہے۔ اگرچہ یہ خلا کے وسیع حصے میں پھیل جاتی ہے۔


سورج ایک وسیع گھومتی ہوئی آتشبازی کی طرح گھومتا ہے، جہاں سے وہ خلا میں ہر طرف اخراج کرتا رہتا ہے۔ اگر ان میں سے ایک ہمارے سیارے کی طرف رخ کرتی ہے جس کی مقناطیسی فیلڈ زمین کی مقناطیسی فیلڈ کے ساتھ موافق ہے تو دونوں فیلڈز ایک دوسرے کے ساتھ مل بھی سکتی ہیں۔ جب شمسی طوفان قریب سے گزر جاتا ہے تو زمین کی مقناطیسی فیلڈ ایک لمبی دم کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ اور جب یہ مقناطیسی فیلڈ واپس ٹھیک ہوتی ہے تو وہ زرات جو چارج ہو چکے ہیں، وہ بڑھتی ہوئی رفتار کے ساتھ زمین کا رخ کر لیتے ہیں۔ 

جب یہ زرات زمین کی فضا سے ٹکراتے ہیں تو وہ جلنے لگتے ہیں جس سے معروف شمالی اور جنوبی لائٹس کا منظر سامنے آتا ہے۔ تاہم زمین کی مقناطیسی فیلڈ میں اس خلل کے اور بھی زیادہ سنگین اثرات ہوتے ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ 1972 میں سمندری بارودی سرنگیں اسی وجہ سے پھٹی تھیں۔ ان بارودی سرنگوں کو اس طرح تیار کیا گیا تھا کہ وہ آنے والی کشتیوں کے مقناطیسی فیلڈ کو جانچ سکیں۔ مگر ان کو بنانے والوں نے یہ نہیں سوچا کہ شمسی طوفان سے بھی یہ ہو سکتا ہے۔

اگلا انتہائی شدید طوفان کب آئے گا؟
سائنسدان یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ان شمسی طوفانوں کو شروع کیا چیز کرتی ہے اور ایک مرتبہ شروع ہو جائیں تو خلا میں ان کو ٹریک کیسے کیا جا سکتا ہے۔ زمین کے مقناطیسی ریکارڈ 19ویں صدی کے وسط سے موجود ہیں۔ ان کے مطابق تقریباً ہر سو سال کے بعد خلا میں ایک انتہائی شدید موسمیاتی واقعہ ہو سکتا ہے تاہم چھوٹے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ 1859 میں کیرنگٹن ایونٹ ہوا تھا جو اب تک کے ریکارڈ کیے گئے واقعات میں سب سے شدید تھا اور اس میں ٹیلی گراف کا نظام خراب ہو گیا تھا۔ آ ئندہ اگر ایسا ہوا تو اس کے نتائج اور زیادہ سنگین ہوں گے۔ ہر شمسی سائیکل کے ساتھ ساتھ عالمی برداری ٹیکنالوجی پر زیادہ منحصر ہوتی جا رہی ہے۔ 2018 میں خلائی سیٹلائٹس ہمارے مواصلاتی اور نیویگیشن نظام کا اہم ترین حصہ ہیں۔ طیارے برِاعظموں کو ملاتے ہیں اور بجلی کی ترسیل کا نظام دنیا بھر میں پھیلا ہوا ہے۔ شدید شمسی طوفان میں یہ سب درہم برہم ہو سکتا ہے۔ شمسی طوفان کے بعد چارجڈ ذرات خلائی گاڑیوں اور طیاروں کے انتہائی چھوٹے برقی نظام کو تباہ کر سکتے ہیں۔

مستقبل کی منصوبہ بندی
ماضی میں خلا میں شدید موسمی واقعات میں اتنی سیٹلائٹس اور پاور گرڈز تباہ ہو چکی ہیں کہ یہ واضح ہو گیا ہے کہ ہمیں سورج پر نظر رکھنی ہو گی اور نظام شمسی کے زمین پر اثرات کے بارے میں پیشنگوئی کرنے کے لیے سورج کا گہرا مشاہدہ ضروری ہے۔ ماہرین اس پر آسٹریلیا کے محکمہ موسمیات سے لے کر برطانیہ کے محکمہ موسمیات اور امریکہ کے نوا سپیس ویدر پریڈکشن تک دنیا بھر میں کام کر رہے ہیں۔ سب کا کہنا ہے کہ وہ یہ بہتر اندار میں پتہ لگا سکتے ہیں کہ کب طوفان زمین کی جانب بڑھے گا اور وہ اس کی آمد کی پیشن گوئی چھ گھنٹوں کے اندر اندر کر سکتے ہیں۔

اس میں کسی بھی تیاری کے لیے کم کام رہ جاتا ہے لیکن پیشن گوئی سے برطانیہ کی معیشت کو 16 ارب سے تین ارب پاؤنڈ تک نقصان پہنچے گا۔ ایک درست خلائی موسمیاتی فورکاسٹ سے ہمیں اپنے آثاثے محفوظ رکھنے میں مدد ملے گی تاکہ ہم طوفان کے دوران انھیں استعمال نہ کریں یا ایسی حالت میں رکھیں جہاں وہ محفوظ ہوں۔ بہت سے طیارے یورپ سے شمالی امریکہ آنے جانے کے دوران قطبِ شمالی کے اوپر سے گزرتے ہیں۔ شمسی طوفان کے دوران ان طیاروں کو دیگر راستے دیے جا سکتے ہیں تاکہ قطبِ شمالی اور قطب جنوبی سے بچا جا سکے جہاں ان ذرات کی تعداد سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ 1972 کے بعد سے ہم نے شمسی طوفانوں کے بارے میں بہت کچھ جان لیا ہے مگر ٹیکنالوجی میں جدت کے ساتھ ساتھ ہمیں اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ وہ ہر اس چیز کا مقابلہ کر سکے جو سورج ہم پر پھینک سکتا ہے۔

پروفیسر کرس سکاٹ
یونیورسٹی آف ریڈنگ

بشکریہ بی بی سی اردو

 

Post a Comment

0 Comments