Science

6/recent/ticker-posts

گلیلیو کی کہانی

ایک نوجوان طالب علم اٹلی کے مقام پیسا کے ایک گرجا میں کھڑا چھت سے لٹکے ہوئے ایک لیمپ پر نظریں جمائے ہوئے تھا۔ ہوا چل رہی تھی۔ لیمپ ہوا سے جھول رہا تھا، کبھی کم کبھی زیادہ۔ ہزاروں آدمیوں نے اس سے پہلے لیمپ کو اسی طرح جھولتے دیکھا ہو گا، لیکن کسی نے اس سائنسی اصول کی طرف توجہ نہیں دی تھی جو سادہ مثال کی حرکت میں چھپا تھا۔ جو لوگ دنیا میں عزت و شہرت حاصل کرتے ہیں ان کی زندگی شروع ہی سے عام لوگوں سے کچھ مختلف ہوتی ہے۔ ان کی طبیعت میں کھوج اور تجسس کا مادہ شروع سے موجود ہوتا ہے۔ اس ہونہار طالب علم کا نام گلیلیو تھا۔

اس زمانے میں گھڑیاں تو تھیں نہیں اور یہ طالب علم اس جھولتے ہوئے لیمپ کا وقفہ معلوم کرنا چاہتا تھا۔ اس نے گھڑی کا کام اپنی نبض سے لیا اور یہ معلوم کیا کہ لیمپ خواہ زیادہ جھول رہا ہو یا کم اس کی ایک حرکت میں یکساں وقت لگتا ہے۔ وجہ ظاہر ہے جسم جب زیادہ فاصلہ طے کرتا ہے تو اس کی رفتار بھی زیادہ ہوتی ہے اور جب وہ کم فاصلہ طے کرتا ہے تو اس کی رفتار بھی کم ہوتی ہے۔ پس ایک حرکت کا وقفہ برابر ہی رہتا ہے۔ یہ تجربہ اور اس کا اصول بظاہر سادہ معلوم ہوتا ہے لیکن آج ہماری زندگی میں اس کی بڑی اہمیت ہے۔ اب بھی پینڈولم والے کلاک کہیں کہیں نظر آ جاتے ہیں۔ پینڈولم کا فائدہ یہ ہے کہ کلاک اس کی مدد سے وقت صحیح دیتے ہیں۔

گلیلیو جس وقت ان باتوں پر غور کر رہا تھا، اس وقت اس کی عمر صرف سترہ برس تھی۔ اس کا دریافت کیا ہوا اصول آج بھی موجود ہے اور ہمارے کام آتا ہے۔ گلیلیو اٹلی کے شہر پیسا میں پیدا ہوا۔ اس کا باپ ایک قابل ریاضی دان تھا۔ وہ اپنے بیٹے کو تاجر بنانا چاہتا تھا۔ لیکن گلیلیو کو کاروبار سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ وہ علم حاصل کرنا چاہتا تھا۔ لہٰذا اسے پیسا کی یونیورسٹی میں داخل کرا دیا گیا۔ طالب علمی کے زمانے میں ہی اس نے ان اصولوں کی مخالفت شروع کر دی جو ایک ہزار سال سے مشہور چلے آ رہے تھے اور جنہیں قدیم یونانی فلسفیوں نے وضع کیا تھا۔ 

جلد ہی اس نے ریاضی میں اتنا نام پیدا کیا کہ اسے اسی یونیورسٹی میں پروفیسر کا عہدہ مل گیا۔ بات دراصل یہ تھی کہ اس زمانے کے تمام سائنس دان قدیم یونانی فلسفی ارسطو کو اپنا استاد مانتے تھے۔ ارسطو نے ایک اصول وضع کیا تھا کہ اگر سو پونڈ اور ایک پونڈ کے دو وزنی جسم ایک ساتھ ایک ہی اونچائی سے نیچے گرائے جائے تو سو پونڈ والا جسم ایک پونڈ والے جسم کے مقابلے میں سو گنا زیادہ تیزی سے زمین پر گرے گا۔ گلیلیو نے یہ قانون غلط ثابت کر دکھایا اور لوگوں کو بتایا کہ ایک ہی شکل اور حجم کے دو جسم بلندی سے ایک ساتھ گریں گے خواہ ان کا وزن کچھ بھی ہو۔ 1602ء میں گلیلیو نے ایک تھرمامیٹر ایجاد کیا لیکن اس کی زیادہ شہرت اس دوربین کی وجہ سے ہوئی جو دن رات کی محنت سے تیار کی اور جو بائیس میل دور تک کی چیزوں کو بڑھا چڑھا کر دکھا سکتی تھی۔

کچھ اور تحقیق اور تجربے کے بعد گلیلیو نے ایک ایسی دوربین بنائی جو اجرام فلکی کے مشاہدے کے کام آ سکتی تھی۔ اس نے اس کا رخ چاند کی طرف پھیرا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ چاند پر ہماری زمین کی طرح پہاڑ اور ریگستان موجود ہیں۔ قدیم ہیئت دان ان کو سمندر سمجھتے تھے۔ یہ تو زمین آسمان کا فرق نکل آیا۔ گلیلیو نے معلوم کیا کہ کہکشائیں بہت سے ستاروں کا مجموعہ ہیں۔ اس کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے نتائج کی پروا کیے بغیر قدیم خیالات کی مخالفت کی کیونکہ وہ ان کو غلط سمجھتا تھا۔ اس وقت لوگوں کو یہ بتایا جاتا تھا کائنات کا مرکز زمین ہے اور سورج ہماری زمین کے گرد گھومتا ہے۔ 

گلیلیو نے کہا زمین تو صرف ایک سیارہ ہے وہ دوسرے سیاروں کی طرح سورج کے گرد گھومتی ہے۔ لوگوں نے یہ بات سنی تو ان کے غصے کی حد نہ رہی۔ وہ سمجھے کہ گلیلیو ان کے قدیم مذہبی اعتقادات سے کھیلنے کی کوشش کر رہا ہے۔ انہوں نے گلیلیو کو مذہبی رہنماؤں کا دشمن بنا دیا۔ گلیلیو خود روم گیا اور بات صاف کی۔ 1611ء میں گلیلیو نے روم میں یہ اعلان کر ڈالا کہ سورج کی سطح پر سیاہ داغ ہیں۔ اب اس کے دشمنوں کو نیا بہانہ مل گیا۔ مذہبی عدالت نے گلیلیو کو تنبیہ کر دی۔ بے چارہ چند روز خاموش رہا۔ اب وہ بوڑھا ہو گیا تھا اور بیمار بھی رہنے لگا تھا۔ لیکن اس کی ایجادات کا سلسلہ جاری رہا۔ اس نے خوردبین بھی ایجاد کی جو بعد میں طبی سائنس کی ترقی کا سبب بن گئی۔

گلیلیو نے 1634ء میں ایک کتاب شائع کی تو سارا ملک اس کے خلاف ہو گیا اور روم کی مذہبی عدالت میں اس پر مقدمہ چلایا گیا۔ یہ اس کی ضعیفی کا وقت تھا اور کوئی اس کا حامی نہیں تھا۔ اس کی زبان بند کی گئی لیکن وہ سچائی کی راہ پر جما رہا۔ اس نے ستاروں کے علم کا مزید مطالعہ کیا اور اپنے دوستوں کو بتایا کہ نظام شمسی کا مرکز آفتاب ہے۔ 1642ء کو گلیلیو نے اسی سال کی عمر میں انتقال کیا۔ اس کے دشمن اب بھی باز نہ آئے۔ انہوں نے پوپ کو ابھارا کہ اس کا جنازہ شان و شوکت سے نہ اٹھنے پائے اور نہ اس کا مقبرہ سنگ مر مر کا بننے پائے۔ نہ گلیلیو رہا اور نہ اس کے دشمن لیکن آنے والے وقت نے ثابت کر دیا کہ جو کچھ اس قابل اور دلیر سائنس دان نے کہا تھا وہ صحیح تھا۔

علی ناصر زیدی


 

Post a Comment

0 Comments