Science

6/recent/ticker-posts

چارلس ڈارون کی جستجو

آپ کو ایک ایسے سائنس دان کی زندگی کے حالات بتاتے ہیں جس نے زمین پر زندگی کے متعلق جستجو کی اور جانداروں کے ارتقا کو جاننے کی کوشش کی۔ اٹھارویں صدی کے آخری نصف دور میں لچ فیلڈ نامی ایک مقام پر ایک ڈاکٹر رہتا تھا جس کا نام اراسمس ڈارون تھا۔ اس کی قابلیت کی وجہ سے اس کی شہرت اتنی زیادہ تھی کہ انگلستان کے بادشاہ جارج سوم نے اسے لندن آنے کی دعوت دی تھی، لیکن اراسمس ڈارون لچ فیلڈ ہی میں خوش تھا جہاں اس نے ایک باغ لگا رکھا تھا۔ ڈاکٹری کے علاوہ اسے قدرتی مناظر، شاعری اور فلسفے سے بھی لگاؤ تھا۔ اس زمانے کے تمام سائنس دان اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ دنیا کا ہر جان دار شروع سے اسی حالت میں تھا جس میں وہ اب موجود ہے۔ 

لیکن اراسمس ڈارون کو اس خیال سے اختلاف تھا۔ وہ نظریہ ارتقا یا اس خیال کا قائل تھا کہ زندگی ننھے جانداروں سے شروع ہوئی اور جیسے جیسے وقت گزرتا گیا چڑیاں اور بڑے جان دار اسی مخلوق سے بنتے گئے۔ حتیٰ کہ زمین پر انسا ن نمودار ہوا۔ 1802ء میں اراسمس ڈارون کا انتقال ہو گیا اور اس کا تیسرا بیٹا رابرٹ ڈارون ڈاکٹر بنا۔ اس نے شروس بری میں کام کرنا شروع کیا اور وہیں 12 فروری 1809ء کو اس کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام چارلس ڈارون رکھا گیا۔ یہی وہ شخص ہے جس نے بظاہر زندگی کے معمے حل کیے اور دنیا کے سامنے نظریہ ارتقا پیش کیا۔ چارلس چھ بہن بھائیوں میں پانچواں تھا اور وہ ابھی آٹھ سال ہی کا تھا کہ اس کی والدہ کا انتقال ہو گیا۔

اس کے باپ اور بڑی بہنوں نے اس کی پرورش کی۔ 1818ء میں شروس بری کے سکول میں اس کی تعلیم شروع ہوئی جو پرانی قسم کی تھی۔ چارلس کو بچپن سے ہی کیمیا کے تجربوں کا شوق تھا جو وہ اپنے گھر پر ایک چھوٹی سی تجربہ گاہ میں کرتا رہتا تھا۔ اس کے علاوہ اسے پودوں اور معدنیات اور دوسری قدرتی چیزوں سے بڑا لگاؤ تھا۔ جہاں کہیں کوئی ایسی چیز نظر آتی تھی وہ فوراً اسے اٹھا لیتا تھا۔ اور گھر لا کر اپنے ’’خزانے‘‘ میں جمع کر لیتا تھا۔ چارلس ڈارون کے خاندان کی خواہش تھی کہ وہ اپنے بزرگوں کا پیشہ اختیار کرے اور ڈاکٹر بن جائے، لہٰذا اسے 1825ء میں اعلیٰ تعلیم کے لیے ایڈنبرا یونیورسٹی میں داخل کر دیا گیا۔ لیکن ڈاکٹری پڑھنے میں اس کا جی نہیں لگتا تھا۔

اسے انسان کے جسم کے علم اور دواؤں وغیرہ سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ آپریشن کے کمرے سے اسے وحشت تھی۔ ایک دوست کے مشورے سے وہ 1828ء میں کیمبرج کے ایک کالج میں داخل ہو گیا۔ اور وہاں فرصت کا وقت قدرتی مناظر دیکھنے، نباتات جمع کرنے اور سیر و تفریح میں گزارنے لگا۔ اسے طرح طرح کے بھنورے جمع کرنے کا بہت شوق تھا۔ کیمبرج کے دوران قیام میں چارلس ڈارون کو حیوانات اور نباتات کی معلومات حاصل کرنے کا شوق ہوا۔ یہی زمانہ اس کے فطرت پسند ہونے کی ابتدا تھی۔ یہاں نباتات کے ایک استاد پروفیسر ہین سِلوسے اس کی ملاقات ہوئی اور بے تکلفی بڑھی۔ 

چارلس ڈارون کی بڑی خواہش تھی کہ اسے دنیا میں گھومنے پھرنے اور نباتات و حیوانات کو دیکھنے کا موقع ملے۔ اتفاق سے پرفیسر ہین سلو کے ذریعے اسے جلد ہی یہ موقع مل گیا۔ ایک بحری جہاز دنیا کے دورے پر جا رہا تھا۔ وہاں ایک ماہر نباتات کی ضرورت تھی جو ساتھ چلے۔ اس مقصد کے لیے چارلس ڈارون کا انتخاب ہو گیا۔ دسمبر 1831ء کو یہ جہاز کیپٹن فٹز کی سرکردگی میں انگلستان سے جنوب کی طرف روانہ ہوا۔ یہ سفر پانچ سال جاری رہا۔ اس دوران میں ڈارون کو جنوبی امریکا کا ساحل دیکھنے کے علاوہ آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، تسمانیہ، جزائز مالدیپ، سینٹ ہلینا اور کتنے ہی دوسرے جزیروں اور ملکوں کی سیر کرنے کا موقع ملا اور جب وہ وطن واپس آیا تو اس کے پاس پودوں اور جانوروں کے نہایت نادر نمونے موجود تھے جو اس نے اس سفر میں جمع کیے تھے۔

اس کے علاوہ ڈارون نے زمین کے متعلق بھی بہت سی نئی معلومات حاصل کیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اسی سفر سے اسے نظریہ ارتقا کا خیال آیا کیوں کہ وہ سمجھ گیا تھا کہ تمام مخلوق جینے کے لیے ایک دوسرے پر منحصر ہے۔ سفرسے واپسی پر اس نے تمام حال لکھنا شروع کیا۔ 1859ء میں اس نے ایک ایسی کتاب شائع کی جس نے اس کے نام کو ہمیشہ کے لیے زندہ کر دیا۔ اس کا نام اصل الانواع (اوریجن آف سپیشیز) ہے۔ اس کتاب کی بارہ سو جلدیں پہلے ہی دن فروخت ہو گئیں۔ 19 اپریل 1882ء کو اس عظیم سائنس دان کا انتقال ہو گیا۔ اس کے نظریات سے اختلاف ہو سکتا ہے ،لیکن اس نے جو شمع اپنی محنت اور جستجو سے روشن کی تھی وہ ابھی تک جل رہی ہے۔

محمد ریاض


 

Post a Comment

0 Comments