Science

6/recent/ticker-posts

لیووزیر : سزائے موت پانے والا عظیم کیمیادان

انقلاب فرانس کے منصفوں نے اپنے ملک کے سب سے بڑے سائنسدان کو موت کے گھاٹ اتارنے کا حکم سنایا لیکن اس ’’انصاف‘‘ پر جلدی ہی ملک کو پشیمان ہونا پڑا۔ دو سال بعد ہی فرانس کی حکومت نے اس سائنسدان کا پوری شان سے دوبارہ جنازہ نکالے کا اہتمام کیا اور اس موقع پر اس کی تعریف اور احترام میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی گئی۔ انتونی لیووزیر (1794-1743ئ) ایک خوش حال گھرانے میں پیدا ہوا۔ اس کے وکیل باپ نے لڑکے کو بھی وکالت کی تعلیم دلائی۔ مگر آبائی پیشہ کو اپنانے کی بجائے اس نے سائنس میں دلچسپی لینی شروع کر دی۔ نئے میدان میں کامیابی حاصل کرنے میں اسے دیر نہ لگی۔ 22 سال کی عمر میں اس نے فرانس کی سائنس اکادمی کو پیرس کی گلیوں میں بجلی لگوانے کے مسئلے پر ایک انعامی مقابلہ کے لیے ایک منصوبہ بھیجا جس پر اسے سونے کا ایک تمغہ ملا۔

اس کے بعد اسے اس زمانہ کے مشہور ماہر جیالوجی کوٹرڈ کے ساتھ فرانس کا سروے کرنے کا موقع ملا۔ اس دورے کے دوران اس نے فرانس کی مختلف قسم کی زمینوں، کانوں، دریاؤں، پودوں، دھاتوں اور موسموں کا مطالعہ کیا۔ 25 سال کی چھوٹی سی عمر میں اس کا م کی قدر کے طور پر لیووزیر کو اکادمی کا ممبر چنا گیا۔ اس عزت افزائی کے بعد اس کی ذمہ داریاں بھی بڑھ گئیں۔ اکادمی کے ممبر کے طور پر اس نے متعدد قسم کے مسائل پر کھوج کی، جن میں قابل ذکر یہ ہیں: پیرس میں پانی کی فراہمی، فاسفورس کی کشید، لاوا کا ٹمپریچر ناپنا، پیرس کی نالیوں کی بدبو دور کرنا، کیڑے مکوڑوں کے سانس لینے کا طریقہ، بارود کی بناوٹ، لوہے کو زنگ لگنا، سبزی کے بیجوں سے تیل نکالنا، کپڑے کے داغ دور کرنا، جہازوں میں صاف پانی ذخیرہ کرنا، رنگوں کی تھیوری وغیرہ۔

ان سائنسی کارناموں کے علاوہ لیووزیر نے اسلحہ خانے کے منیجرکی نوکری حاصل کر لی۔ ساتھ ہی اس نے ایک ایسی کمپنی کے ساتھ بھی کام شروع کیا جو اس زمانے میں عوام سے ٹیکس وصول کرنے کا سرکار سے ٹھیکہ کر لیتی تھی۔ اس طرح اس کی آمدنی کافی بڑھ گئی جس کا بیشتر حصہ وہ سائنس کے تجربوں پر خرچ کرتا تھا۔ ٹیکس وصول کنندہ کے طور پر کام کرتے ہوئے نوجوان سائنسدان کی ملاقات ایک خوبصورت نوعمر لڑکی سے ہوئی جس سے نہ صرف جہیز بلکہ ایک سمجھدار بیوی بھی ملی جو ایک قابل سیکریٹری ثابت ہوئی۔ وہ انگریزی اور فرانسیسی زبانیں جانتی تھی۔ اس نے اپنے خاوند کے لیے ان زبانوں میں دستیاب سائنس کی کتابوں کے فرانسیسی میں ترجمہ کیا۔ 

اسلحہ خانہ کے اندر ہی لیووزیر نے اپنی تجربہ گاہ قائم کی جسے اس نے زمانے کے قیمتی سے قیمتی آلات سے لیس کیا اور جہاں بہترین سائنس دانوں کو کام پر لگایا۔ اس تجربہ گاہ میں ہی اس نے جدید کیمسٹری کی سائنس کی بنیادیں رکھیں۔ اس سے پہلے کیمسٹری کیمیا گری کا ہی دوسرا نام تھا۔ لیووزیر نے ثابت کیا کہ کیمیا گری محض توہمات پر مبنی نہیں ہے اس نے کیمسٹری کے بنیادی اصول دریافت کیے ، کیمسٹری کی بیشتر ابتدائی اصطلاحات بھی اسی نے تیار کیں جو آج تک زیراستعمال ہیں۔ لیووزیر نے 1789ء میں کیمسٹری کی بنیادی کتاب شائع کی جو کیمسٹری کے میدان میں اتنی ہی معرکہ آرا تھی جتنی فزکس کے میدان میں نیوٹن کی کتاب۔ 

اس کتاب سے سائنس کی دنیا میں اتنی ہل چل مچی کہ مصنف نے خود اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ میری نئی تھیوری دنیا کے فکری حلقوں میں انقلاب کی طرح چھا گئی ہے۔ کیمیائی گروں کا اعتقاد تھا کہ پانی کو مٹی، مٹی کو لوہا اور لوہے کو سونے میں تبدیل کیا جا سکتا ہے، وہ آگ کو ایک الگ عنصر مانتے تھے۔ جو ہر چیز میں موجود ہوتا ہے۔ اورجلنے کے کام آتا ہے۔ لیووزیر نے بتایا کہ پانی، مٹی، لوہا اور سونا کی بناوٹ الگ الگ ہے۔ اس طرح اس نے کیمیا گروں کی توہمات کا پردہ فاش کیا۔ مثال کے طور پر اس نے یہ حیرت انگیز دریافت کی کہ پانی آکسیجن اور ہائیڈروجن کی گیسوں کے مرکب سے بنتا ہے۔ ان دو گیسوں کے نام بھی سب سے پہلے اسی نے رکھے۔ پرسیٹلے نے اس سے پہلے ہوا کی بناوٹ پر کھوج کی تھی۔ اس کے نتائج کو استعمال کرتے ہوئے لیووزیر نے بتایا کہ ہوا مختلف گیسوں کا مجموعہ ہے۔

لیووزیر نے بہت سے تجربوں سے ثابت کیا کہ آگ کوئی الگ عنصر نہیں جو کسی چیز کے جلنے کے بعد اس سے نکل جاتا ہے۔ انہی تجربوں سے اس نے ایک اور اہم نتیجہ اخذ کیا جو آئن سٹائن کی دریافتوں تک سائنس کا بنیادی اصول رہا یعنی مادہ کی شکل تبدیل کرنے سے اس کی کل مقدار میں کمی یا بیشی نہیں ہو سکتی۔ لیووزیر نے ہیرے کے ٹکڑے کو جلا کر کاربن ڈائی آکسائیڈ حاصل کی اور ثابت کیا کہ ہیرا اور کوئلہ دونوں کاربن کی مختلف شکلیں ہیں۔ اس نے انسانی جسم میں قوت ہونے پر بھی تجربے کیے۔ لیووزیر کی دلچسپیاں سائنس تک محدود نہ تھیں۔ اسے بینک آف فرانس کا صدر بنایا گیا جس کی حیثیت سے اس نے قومی اسمبلی کو افراط زر پر ایک رپورٹ دی جس کی ماہرین اقتصادیات نے بھی تعریف کی۔ 

اس نے انقلاب فرانس کے بعد انقلابی حکومت کا تعلیمی ڈھانچہ بھی تجویز کیا اور ناپ تول کا اعشاریہ نظام دریافت کیا۔ وہ ایک سیاسی شخصیت بھی بنا اور عارضی پارلیمنٹ میں عوام کی نمائندگی کی جہاں اس نے اعلان کیا کہ یہ خوشی چند لوگوں تک محدود نہیں ہونی چاہیے بلکہ یہ سب کی ملکیت ہونی چاہیے۔ شہرت اور کامیابی کی اس بلندی پر پہنچنے کے بعد انقلاب فرانس کے ایک رہنما کے ساتھ لیووزیر کا سائنس کے ایک مسئلہ پر جھگڑا ہو گیا۔ انقلابی رہنما سائنس کا رہنما بننا چاہتا تھا۔ اس نے آگ کی بناوٹ پر ایک کتاب لکھی جس کی لیووزیر نے تردید کی۔ اس پر بگڑ کر اس نے اپنے اخبار میں اس کے خلاف اشتعال انگیز مضامین لکھے۔

آخر فرانس کے اس عظیم سائنس دان کو 50 سال کی عمر میں ٹیکس فراڈ، تمباکو میں ملاوٹ اور بغاوت کے جرم میں گرفتار کر کے موت کی سزا دی گئی۔ مرنے سے پہلے ایک خط میں اس نے اپنے بھائی کو لکھا۔ ’’میں نے کافی لمبی اور خوشی کی زندگی گزاری ہے۔ مجھے بڑھاپے کی بے آرامی سے چھٹکارا مل گیا۔ میں اپنے پیچھے کچھ علم اور شاید کچھ شہرت چھوڑ چلا ہوں اس سے زیادہ اس دنیا میں اور کیا توقع کی جا سکتی ہے۔‘‘

بلراج پوری


 

Post a Comment

0 Comments