Science

6/recent/ticker-posts

ابن سینا اور ابن خلدون کا نظریہ ریاست

جہاں تک ابن سینا کے سیاسی فلسفے کا تعلق ہے، تین عوامل اس میں مدغم ہوگئے تھے : یونانی افکار، ان پر فارابی کے اضافے اور ترامیم، اور خلافت کے بارے میں راسخ العقیدگی پر مبنی نظریات جو فقہا نے پیش کیے تھے۔ ابن سینا بھی فارابی اور یونانی مفکرین کی طرح یہ عقیدہ رکھتا تھا کہ انسان کا اصلی مقصد ’’حصولِ مسرّت‘‘ ہے۔ اس کا یہ بھی عقیدہ تھا کہ جو ریاست پیغمبرِ قانون ساز پر نازل شدہ وحی پر مبنی شریعت کے مطابق قائم ہوئی تھی، وہ طاقت (ملک) کے بل پر قائم کردہ ریاست سے کہیں زیادہ اعلیٰ اور بلند تھی۔

جہاں تک خلافت کا تعلق ہے، ابن سینا کا خیال تھا کہ خلیفہ جسے شریعت کا مکمل علم حاصل ہونا چاہیے، اس کی اطاعت اس لیے کرنی چاہیے کہ وہ پیغمبر ِقانون ساز کا وارث ہے۔ اس نے بھی خلیفہ کے وہی فرائض، ذمہ داریاں اور اوصاف بتائے ہیں جو فقہا نے گنوائے ہیں۔ البتہ یہ اضافہ کیا کہ خلیفہ کا انتخاب پوری امتِ مسلمہ کو کرنا چاہیے۔ ابن سینا نے فقہا سے معنوی لحاظ سے اختلاف کیا، جب اس نے کہا کہ غاصب (متغلّب) حکمران کے خلاف جنگ کرنی چاہیے اور ممکن ہو تو اسے قتل کر دینا چاہیے۔ اس نے تو یہاں تک کہا کہ جو شہری غاصب کے خلاف جنگ کے وسائل رکھنے کے باوجود جنگ نہیں کرتے، وہ مستوجب سزا ہیں۔

بے شک ابن سینا کا مرتبہ عالی اور بلند ہے، لیکن بدقسمتی سے اس کے نظریات میں بھی تضاد پایا جاتا ہے۔ اس نے دلیل کے ساتھ کہا تھا کہ اگر ایک کمزور اور نااہل خلیفہ کو ہٹا کر اس کی جگہ ایک طاقتور اور عقل مند باغی کو تخت پر بٹھا دیا جائے تو شہریوں کو چاہیے کہ وہ باغی کا دعویٰ تسلیم کریں، بشرطیکہ دوسرے اعتبارات سے بھی وہ اِس منصب کے اہل ہو۔ گویا ابن سینا نے اپنا سابقہ سخت اور بے لچک موقف ایک ایسے حکمران کے حق میں بدل لیا جس کی حکمرانی طاقت اور ذہانت پر مبنی ہو۔ ظاہر ہے کہ اس نے اس نکتے پر زور دیا کہ ایک طاقتور اور ذہین، مگر کم پارسا، غاصب حکمران ایک کمزور اور نااہل، مگر متقی خلیفہ کے مقابلے میں بہتر اور قابلِ ترجیح ہے۔ 

ابن سینا نے عبادات اور معاملات میں بھی امتیاز روا رکھا۔ اس نے کہا کہ عبادات کی انجام دہی ضروری ہے، اس لیے کہ یہ ملتِ اسلامیہ کے ہر فرد کے لیے فائدہ مند ہے، لیکن امام کو بنیادی طور پر شہریوں کے معاملات سے تعلق رکھنا چاہیے۔ معاشرتی تعلقات کی تنظیم ایسی قانون سازی سے کرنی چاہیے جو شہریوں کی جان و مال اور لین دین کے معاملات کا تحفظ کر سکے۔ اس نے سفارش کی کہ شریعت کا نفاذ ہونا چاہیے اور جو لوگ شریعت کے مخالف ہوں، انھیں ریاست سے نکال باہر کرنا چاہیے۔ اس کا حصولِ مسرت کا دوگونہ تصور بھی یعنی موجودہ دنیا میں انسان کی خوشحالی اور آخرت میں نعمتوں کے حصول کی تیاری، شریعت پر پوری پابندی کے ساتھ عمل کرنے سے وابستہ ہے۔

دوسرے مسلمان مفکرین کی طرح ابن رشد کا بھی یہی خیال تھا کہ انسان مسرت یا کاملیت عالم تنہائی میں حاصل نہیں کر سکتا۔ اسے دوسرے انسانوں سے سیاسی تعلقات ضرور استوار کرنے چاہئیں۔ وہ ریاست کے بغیر زندہ بھی نہیں رہ سکتا۔ اس کا یہ اصرار عین منطقی ہے، کیونکہ ایک اچھی ریاست یقینا قانون پر مبنی ہوتی ہے۔ مثالی ریاست وہ ہوتی ہے جس کی بنیاد وحی پر رکھی گئی ہو اور سچی خوشی یا اعلیٰ ترین کاملیت ایسی ہی ریاست میں حاصل ہو سکتی ہے۔ مثالی ریاست کا آئین شریعت ہے۔ چونکہ صرف فلسفی ہی شریعت کے گہرے اسرار و معانی سمجھنے کی قابلیت رکھتا ہے، اور وہی ان کی صحیح تشریح کر سکتا ہے، لہٰذا اسے مثالی ریاست کی سیاست میں انتہائی اہم کردار ادا کرنا پڑتا ہے۔ 

ابن رشد اگرچہ خود بھی عالمِ دین تھا، مالکی مکتب کا فقیہہ تھا، قرطبہ کا قاضی تھا، تاہم وہ شریعت کی تفہیم و تشریح کے معاملے میں فلاسفہ کو علمائے دین اور فقہا کے مقابلے میں بہتر اور قابل ترجیح سمجھتا تھا۔ ابن خلدون نے شریعت کی بنیاد پر قائم شدہ ریاست (سیاستِ دینیہ) اور عقل کی بنیاد پر قائم شدہ ریاست (سیاست عقلیہ) کے درمیان خطِ امتیاز کھینچا ہے اس کا نظریہ تاریخ زیادہ تر ’’عصبیت‘‘ کے تصور پر استوار ہے۔ عصبیت کا مطلب ہے، ایک گروہ یا خاندان کا دعویٰ حکمرانی، اجتماعی کارناموں اور فتوحات کی وجہ سے حاصل شدہ شہرت ، عزمِ صمیم اور زبردست طاقت کی اساس پر۔ 

ابن خلدون کے نظریے کے مطابق جب تک ایک گروپ (مثلاً قبیلہ قریش) یا خاندان (مثلاً سلجوق) اپنی کمزوری اور زوال کے آثار ظاہر نہیں کرتا، اس وقت تک وہ ریاست کے اوپر اپنا اقتدار برقرار رکھتا ہے۔ اور جب ایک گروپ یا خاندان اقتدار کھودیتا ہے تو دوسرا گروپ یا خاندان تازہ ’’عصبیت‘‘ کے ساتھ اقتدار سنبھال لیتا ہے۔ ابن خلدون کے وقتوں میں بیشتر موجود مسلم ریاستیں مقتدر ریاستیں تھیں یعنی وہ طاقت کے بل پر اقتدار میں آئی تھیں۔ اس کی اپنی اصطلاح میں یہ ریاستیں ’’انسان کے خود ساختہ قوانین پر‘‘ قائم ہوئی تھیں۔ اس کا طرز استدلال یہ تھا کہ رسول کریمؐ قانون ساز امام تھے۔ آپؐ نے مسلمانوں کو شریعت کے تحت متحد و منظم کر دیا تھا، جس کی بالادستی کو خلفائے راشدینؓ کے پوری عہدِ خلافت میں تسلیم کیا جاتا رہا تھا۔ بعدازاں مذہبی جوش و تحریک میں کمی آنے کی وجہ سے خلافت ملوکیت میں بدل گئی، جس میں حکمرانی انسانی عقل کے وضع کردہ قوانین کے تحت کی جاتی تھی، حالانکہ دعویٰ یہ کیا جاتا تھا کہ ان کا اصل سرچشمہ شریعت ہے۔ 

ابن خلدون نے مذہبی و سیاسی ادارے کی حیثیت سے خلافت کی اہمیت پر بھی بحث کی ہے اور ماوردی کی اِس رائے سے اتفاق کیا ہے کہ خلیفہ کا کام دینِ اسلام کا تحفظ اور کاروبارِ ریاست کا انصرام ہے۔ لیکن ابن خلدون کے زمانے میں خلافت خالص مذہبی ادارے کی حیثیت سے صرف قاہرہ میں باقی بچ گئی تھی، جبکہ مدت ہوئی، خلیفہ کا انتظامی یا سرکاری معاملات سے کوئی سروکار نہ رہا تھا۔ ابن خلدون کو ایک عمل پسند مفکر کی حیثیت سے یقین تھا کہ ایک مقتدر ریاست (ملوکیت) بھی انسان کے بنائے ہوئے خود ساختہ قوانین کے ذریعے اپنے شہریوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کر سکتی ہے۔

اس نے سفارش کی تھی کہ ملوکیت کو اپنا رشتہ شریعت سے منقطع نہیں کر لینا چاہیے، کیونکہ ملوکیت اصل میں خلافت ہی سے نکلی ہے۔ ابن خلدون نے شریعت کی نظری و اصولی اہمیت کو تسلیم کرنے کے باوجود، ریاست کو بھی اس کی اصلیت و حقیقت کے ساتھ قبول کیا اور کہا کہ ایک ’’مخلوط‘‘ ریاست بھی جس کا نظمِ حکومت جزواً شریعت کے مطابق اور جزواً انسان کے خود ساختہ قوانین کے تحت چلایا جاتا ہو، اپنے شہریوں کی خدمت بجا لا سکتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں ایک ایسی مسلم ریاست جس کا نظمِ حکومت انسانی عقل کے وضع کردہ قوانین کے تحت چلتا ہو، وہ بھی اپنے شہریوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کر سکتی ہے۔

ڈاکٹر جاوید اقبال

 

Post a Comment

0 Comments