Science

6/recent/ticker-posts

سائنس اور ٹیکنالوجی میں ہم کہاں کھڑے ہیں : ڈاکٹر عبدالقدیر خان

 مغربی اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک میں ایک ہی چیز مشترک ہے، ایمانداری، محنت، تعلیم، سائنس اور ٹیکنالوجی میں مہارت۔ یہ وہی اصول ہیں جن کی تعلیم اسلام ہمیں دیتا ہے۔ کلام مجید میں سورۃ طہٰ آیت 114 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ’’دعا کرو کہ اے میرے پروردگار مجھے اور زیادہ علم دے‘‘۔ اگرچہ یہ بہت ہی مختصر پیغام ہے مگر اس کی وسعت ہمارے قیاس سے کہیں زیادہ ہے اور قرآن کی علم و تعلیم پر احاطہ کی وسعت ظاہر کرتا ہے اور ہمارے پیارے نبیؐ نے خود فرمایا ہے کہ اے رب العزّت مجھے تمام چیزوں کا مکمل علم عطا فرما۔ یہاں علم کا مطلب صرف معلومات نہیں ہے بلکہ دنیا کی مادی حیثیت کی حقیقت و سچائی کو بھی جاننا ہے۔ دنیا میں اس وقت جس قدر معلومات ہیں ان کے پیچھے ہزاروں لوگوں کی محنت و مشقت، جستجو ہے۔ 

لاتعداد سائنسدان، انجینئر (حقیقی معنوں میں) گمنام رہ کر خالق حقیقی سے جا ملے۔ عصر جدید میں آپ کو انسان کی سخت جستجو، محنت نظر آتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرے۔ ارسطو نے کہا تھا کہ ’’تمام بنی نوع انسان کی قدرتی فطرت ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ جاننے کی کوشش کرے‘‘۔ اور ہمارے پیارے نبی ؐ نے فرمایا کہ’’ تم کو اگر علم حاصل کرنے کے لئے چین (یعنی دور دراز ملک) بھی جانا پڑے تو جائو‘‘۔ اس پیغام میں رسول اللہ ؐنے یہ بتانے اور سمجھانے کی کوشش کی کہ تعلیم و علم کے حصول میں نہ تو لِسّانی اور نہ ہی مذہبی اور نہ ہی ثقافتی رکاوٹوں کی گنجائش رکھی گئی ہے۔ اس کا مطلب صاف ظاہر ہے کہ علم و تعلیم اور چیزوں کو جاننے اور سمجھنے کا علم اسلام کا اہم اور ناقابل علیحدگی جز ہے۔

جب مسلمان اپنے عروج پر تھے اس وقت بھی انھوں نے بیت الحکمہ جات قائم کئے تھے اور یہاں پر اعلیٰ تعلیم دی جاتی تھی۔ اس وقت ستارے اور فلک بینی تجربہ گاہیں قائم کیں اور اعلیٰ ریسرچ اسکالرز جمع کئے تھے ان میں فلسفی، سائنٹسٹ، اور انجینئرز وغیرہ پوری دنیا سے جمع کئے گئے تھے۔ اس زمانہ کے چند معروف نام آپ کی خدمت میں پیش ہیں۔ الفارابی، ابن سینا، ابن رُشد، خوارزمی، راضی، مسعودی، وفا، البیرونی، طوسی، نصیرالدین، ابن نفیس، ابن باجہ، ابن طفیل، الکندی وغیرہ نے تاریخ میں اپنے نام اور شاندار کام چھوڑے ہیں ۔ اس وقت پورے یورپ میں ان کی دھوم تھی اور ان کے کاموں کی تقلید کی جاتی تھی اور آج بھی ان کے کاموں کا ریکارڈ موجود ہے۔

مسلمان ساتویں صدی عیسوی سے گیارویں صدی عیسوی تک عروج پر تھے اس کے بعد ان کی تمام توجہ محلات اورباغات پر مبذول ہو گئی اور نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ آہستہ آہستہ ہم نے اسپین، مشرق وسطیٰ، سینٹرل ایشیا، مشرق بعید، افریقہ سب حکومتیں کھو دیں۔ اسپین میں الحمرا محل آج بھی عجوبہ ہے اور دنیا کا سب سے زیادہ سیاحوں کی آمد کا مرکز ہے۔ عجوبہ تو قائم ہے مگر عجوبہ پیدا کرنے والے ذلیل و خوار اور شکست خوردہ ہو کر گمنام ہو گئے۔ سورۃ جاثیہ، آیت 13 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ ’’(اے محمدؐ!) مومنوں سے کہدو جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب کو اپنے حکم سے تمھارے کام میں لگا دیا ہے جو لوگ غور و خوض کرتے ہیں ان کے لئے اس میں قدرت کی نشانیاں ہیں‘‘۔

اتنے اعلیٰ ماضی اور ورثے کے وارث ہونے کے باوجود مسلمان آجکل انتہائی پسماندگی کا شکار ہیں۔ ہم ہر ٹیکنالوجی، سائنس، علم کے لئے مغرب، جاپان، چین کے محتاج ہیں۔ ہم روزمرّہ کی معمولی سے معمولی چیز نہیں بنا سکتے۔ ہم ذرا اپنی حالت زار پر غور کریں۔ ہم ایٹمی اور میزائل قوت ہیں مگر قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں، ہماری درآمدات ہماری برآمدات کے 50 فیصد سے بھی کم ہیں۔ ایک زرعی ملک ہوکر ہم ٹماٹر، پیاز، لہسن، ادرک درآمد کر رہے ہیں۔ یہ ہمارے لئے (بلکہ ہمارے حکمرانوں کے لئے بھی) قابل مذمت اور قابل شرم مقام ہے۔

آج کل مغرب، جاپان اور چین ترقی کی رفتار اور سمت طے کر رہے ہیں اور ہم یعنی ہمارے حکمراں ہر وقت اس کوشش میں رہتے ہیں کہ وہ کونسی اشیاء ہیں جن کی خریداری میں آمدنی کے امکانات زیادہ ہیں۔ خاص طور پر ہتھیاروں کی خریداری پر اربوں ڈالر خرچ ہوتے ہیں گویا یہ حالت جنگ میں ہیں اور چند سال بعد وہ ہتھیار فرسودہ ہو جاتے ہیں تو نئے خریدنے میں مہارت قابل دید ہے۔ میں نے ابھی ذکر کیا تھا کہ ہم اتنے نااہل ہیں کہ زرعی ملک ہوکر ہم ٹماٹر، پیاز، لہسن، ادرک منگواتے ہیں۔ اس سے بھی بڑی برائی جس سے عوام واقف نہیں ہیں وہ یہ ہے کہ ہم اربوں روپیہ کی دالیں درآمد کرتے ہیں۔

آپ زرا ان نااہل اور حکمرانوں کو دیکھئے کہ صبح سے شام تک ڈینگیں مارتے ہیں کہ جیسے اس پسماندہ ملک کو ٹاپ ٹین میں لاکھڑا کیا ہے۔ قرض لے لے کر قوم کو تباہ کر دیا ہے اور ملک کو بیچ دیا ہے۔ آج سے 40 سال پیشتر چین ہمارے مقالے میں بے حد غریب تھا آج وہ دنیا کی دوسری بڑی معاشی طاقت ہے وجہ تعلیم، سائنس، ٹیکنالوجی میں ترقی، ایمانداری، سخت محنت، رشوت خوری اور جرائم کا خاتمہ ہے۔ ہمارے یہاں بدعنوانوں کی بھرمار ہے۔ ان خراب حالات کے ہم خود ذمّہ دار ہیں دوسروں کو الزام دینا غلط ہے۔

ڈاکٹر عبدالقدیر خان
 

Post a Comment

0 Comments