Science

6/recent/ticker-posts

ابن بیطار : سپین کا عظیم مسلم حکیم

اس وقت آپ کے سامنے سپین کے ایک بہت بڑے عالم اور حکیم جلوہ افروز ہیں۔ آپ ابو محمد عبداللہ اور ضیاالدین کے لقب سے یاد کیے جاتے ہیں، بعض کتابوں میں پورا نام ابو عبداللہ احمد المالقی النباتی لکھا ہے اور بعض میں ابو محمد عبداللہ ابن احمد ابن البیطار۔ عام طور پر ابن بیطار اور البیطار المالقی کے نام سے شہرت رکھتے ہیں۔ آپ کے والد کا نام احمد تھا۔ آپ سپین کے ایک مقام بنانا میں 1197ء میں پیدا ہوئے۔ بنانا ملاگا کے آس پاس ہی ایک بستی ہے۔ ملاگا کو عربی میں مالقہ بنا لیا گیا ہے۔ اسی نسبت سے آپ ابن بیطار المالقی مشہور ہوئے۔

ابن بیطار اپنے زمانے کے نہایت مشہور اور قابل طبیب تھے۔ آپ کو جڑی بوٹیوں کے علم میں بڑی مہارت حاصل تھی۔ صرف سپین ہی کے نہیں بلکہ یورپ اور افریقہ کے نہایت ممتاز طبیب خیال کیے جاتے تھے، نہایت ذہین اور عقل مند تھے، عربی کی تعلیم پانے کے بعد آپ نے ’’علوم حکمیہ‘‘ پڑھا اور اتنی زبردست قابلیت پیدا کی کہ امام اور شیخ کے لقب سے یاد کیے جانے لگے۔ ابن بیطار بہت ہی خوش اخلاق اور بامروت تھے، بادشاہوں کی نگاہوں میں بھی عزت حاصل تھی اور عوام میں بھی ہر دل عزیز اور مقبول تھے۔ دس سال تک ملک الکامل شاہ دمشق کے دربار میں طبیب کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔ اس کے انتقال کے بعد قاہرہ (مصر) چلے آئے جہاں ملک الکامل کا بیٹا ملک الصالح نجم الدین ایوب فرماں روا تھا۔ آپ اس کے بھی طبیب خاص مقرر ہو گئے۔

آپ کو جڑی بوٹیوں کی تحقیقات اور چھان بین کا بہت شوق تھا۔ اسی دھن میں آپ نے 20 برس کی عمر میں افریقہ کے بیابانوں شمالی افریقہ، مصر، ایشیائے کوچک اور یونان کے جنگلوں، پہاڑوں کا چپا چپا چھان مارا۔ انہوں نے بوٹیوں کے مقام پیدائش کو دیکھا اور ہری بھری حالت میں ان کے پودوں، پتوں اور پھلوں کا معائنہ بھی کیا، اسی کے ساتھ ساتھ اس بات پر بھی غور کیا کہ بوٹیوں کے سوکھ جانے پر ان کی ظاہری شکل و صورت اور تاثیر میں فرق پڑتا ہے۔ ابن بیطار نے بوٹیوں پر لکھی ہوئی یونانی حکیموں کی کتابوں کو گہری توجہ سے پڑھا تھا، پھر مختلف ممالک میں گھوم پھر کر اپنی معلومات میں اضافہ کیا تھا۔

آپ نے جڑی بوٹیوں کے علم پر ایک عمدہ کتاب ’’کتاب الدویہ المفردہ‘‘ لکھی تھی۔ اس کتاب سے یورپ والوں نے بڑا فائدہ اٹھایا ہے۔ آپ نے دمشق میں بوٹیوں کا ایک باغ لگایا تھا جس میں بہت سی بوٹیاں بوئی گئی تھیں۔ آپ ان بوٹیوں کو بہت غور اور توجہ سے دیکھا کرتے تھے۔ بیماریوں میں ان کے تجربات بھی کرتے تھے۔ دوسرے ملکوں کے مصنف ابن بیطار کی بہت تعریف کرتے ہیں، چناں چہ ’’طب عرب‘‘ (عربین میڈیسن) کے مصنف کیمبل نے لکھا ہے کہ ابن بیطار علم العقاقیر، یعنی جڑی بوٹیوں کا بہت بڑا ماہر تھا۔ اس نے ارسطو وغیرہ کی کتابیں پڑھی تھیں۔ مصر و شام اور ایشیائے کوچک کے جنگلوں کی خاک چھانی تھی۔

آپ نے 14 سو بوٹیوں کے حالات لکھے ہیں۔ ’’نفخ الطیب‘‘ کے مصنف کا خیال ہے کہ ابن بیطار جڑی بوٹیوں کی پہچان اور ان کے متعلق دوسری باتوں میں دنیا بھر میں اپنی مثال آپ تھے۔ عیون الانبا فی طبقات الاطبا کا مصنف ابن ابی اصیبعہ بہت مشہور طبیب اور ابن بیطار کا شاگرد تھا۔ وہ دمشق کے سفر میں ان کیساتھ رہ چکا تھا۔ اس کی پہلی ملاقات دمشق میں ان سے ہوئی تھی۔ وہ لکھتا ہے کہ ابن بیطار نہایت شریف، خوش اخلاق اور بامروت تھے۔ جب انہوں نے دمشق کے آس پاس بوٹیوں کی دیکھ بھال اور چھان بین شروع کی ہے تو میں بھی ان کے ساتھ تھا، اس کے بعد میں نے ان کی کتاب جو بوٹیوں پر انہوں نے لکھی انہیں سے پڑھی۔ 

ابن بیطار یونان کے بڑے اور نامور مصنفوں مثلاً دیقوریدوس اور جالینوس کی کتابیں یونانی زبان ہی میں پڑھا کرتے تھے اور تقریروں میں ان کی کتابوں کے حوالے بھی دیا کرتے تھے۔ ان کی یادداشت بہت اچھی تھی، علم بھی بہت وسیع تھا۔ نفخ الطیب کے مصنف کا بیان ہے کہ ابن بیطار دواؤں کی تحقیقات ہی میں کام آئے۔ ان کی موت کا سبب ایک مہلک دوا ہی تھی۔ انہوں نے تجربہ کرنے کی دھن میں ایک زہریلی بوٹی کھا لی تھی۔ انہوں نے بہت سی کتابیں لکھیں۔ ان میں ’’کتاب الادویتہ المفردہ‘‘ سب سے زیادہ مشہور ہے۔ اس کتاب میں دواؤں کے متعلق قیمتی معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ نئے اور پرانے اطبا کے اقوال بھی لکھے ہیں۔

آخر میں تحقیقات کے نتیجے لکھے ہیں۔ ان کی دوسری کتاب ’’مفردات ابن بیطار‘‘ ہے۔ اس کو ’’جامع الادویہ والا غذیہ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ کتاب 1291ء میں چھپ گئی تھی۔ اس میں معدنی، نباتی اور حیوانی دواؤں سے علاج کا طریقہ بتایا گیا ہے اور ذاتی تجربات بھی لکھے ہیں۔ ان دو کتابوں کے علاوہ ابن بیطار نے چار اور کتابیں لکھیں۔ یہ بھی کافی مشہور ہیں۔ 642ھ مطابق 1248ء میں ابن بیطار نے دمشق میں انتقال کیا اور وہیں انہیں دفن کیا گیا۔

احرار حسین


 

Post a Comment

0 Comments