آپ کو ایک ایسے مسلمان کیمیا دان کا حال سناتے ہیں جس کی محنت اور کوشش سے علم کیمیا کو بڑی ترقی ملی اور وہ موجودہ حالت پر آیا۔ اس کا نام جابر ابن حیان تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ وہ سب سے پہلا کیمیا دان تھا۔ اس کا تعلق عرب کے جنوبی حصے کے ایک قبیلے ازد سے تھا۔ اس کے خاندان کے لوگ کوفے میں آباد ہو گئے تھے۔ لیکن جابر 722ء میں خراسان کے شہر طوس میں پیدا ہوا۔ اس کا باپ حیان کوفے سے یہاں آ گیا تھا۔ جابر ابھی بچہ ہی تھا کہ باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ اس کی ماں اس کی ننھی جان کو ساتھ لے کر عرب چلی گئی اور وہاں اپنے قبیلے کے لوگوں میں رہنے لگی۔
جابر نے یہاں ہی تعلیم پائی۔ دینی تعلیم کے علاوہ اس نے ریاضی اور دوسرے علوم کا مطالعہ بھی کیا۔ جب وہ جوان ہوا تو اپنے قبیلے کو چھوڑ کر مدینہ منورہ میں آگیا۔ یہاں اس نے امام جعفر صادقؓ کے دست مبارک پر بیعت کی۔ امام جعفر صادقؓ نہایت عالم اور باکمال امام تھے۔ ان ہی کی صحبت کا اثر تھا کہ جابر اگرچہ بعد میں سائنس دان بنا لیکن اس پر مذہب کا رنگ بھی غالب رہا۔ مدینہ منورہ سے جابر کوفہ آیا، جہاں اس کے بزرگ رہتے تھے۔ یہاں اس نے اپنی تجربہ گاہ قائم کی اور کیمیا پر تحقیقات کیں جن کی بنا پر وہ دنیا کا پہلا کیمیا دان کہلایا۔ جابر نے بچپن ہی سے بہت محنت کی اور برابر تجربات کرتا رہا۔ اس نے بہت سی کتابوں کا مطالعہ کیا۔ وہ عربی کے علاوہ یونانی زبان بھی اچھی طرح جانتا تھا۔ اسی لیے اس نے یونانی علم کو عربی زبان میں پیش کیا اور پرانے علوم سے فائدہ اٹھایا۔ 786ء میں جابر عمررسیدہ تھا تو مشہور عباسی خلیفہ ہارون الرشید بغداد میں تخت سلطنت پر بیٹھا۔ وہ پڑھے لکھے لوگوں کی بڑی قدر کرتا تھا۔ اس کے وزیر بھی بڑے لائق تھے اور علم کی قدر کرتے تھے۔ انہوں نے جابر کی شہرت سنی تو اسے بغداد بلا لیا لیکن کچھ عرصہ بعد جابر پھر کوفے واپس آ گیا۔
اب تو علم کیمیا بہت ترقی کر چکا ہے۔ اس کی بہت سی شاخیں ہیں، لیکن جابر کے زمانے میں اس علم کا مطلب یہ تھا کہ معمولی دھاتوں کو سونے میں تبدیل کر دیا جائے۔ کسی کو اس میں کامیابی تو حاصل نہیں ہوئی لیکن کوشش سب کرتے تھے۔ جابر نے اپنا وقت صرف اس خیال پر ضائع نہیں کیا۔ اس نے تجرباتی کیمیا پر زور دیا۔ وہ بہت سے تجربات سے واقف تھا جو آج بھی آپ اپنی تجربہ گاہ میں کرتے ہیں، مثلاً حل کرنا، کشیدکرنا، فلٹر کرنا، اشیا کا جوہر اڑانا اور مختلف چیزوں کی قلمیں بنانا، سچ تو یہ ہے کہ جابرتجرباتی کیمیا کا بانی ہے۔ اپنی کتاب میں وہ لکھتا ہے: ’’کیمیا میں سب سے ضروری چیز تجربہ ہے ۔ جو شخص اپنے علم کی بنیاد تجربے پر نہیں رکھتا، وہ ہمیشہ غلطی کھاتا ہے۔ پس اگر تم کیمیا کا صحیح علم حاصل کرنا چاہتے ہو تو تجربے پر انحصار کرو اور صرف اسی علم کو صحیح جانو جو تجربے سے ثابت ہو جائے۔ کسی کیمیا دان کی قابلیت کا اندازہ اس سے نہیں لگایا جاتا کہ اس نے کیا کیا پڑھا ہے بلکہ اس بات سے لگایا جاتا ہے کہ اس نے تجربے کے ذریعے کیا کچھ ثابت کیا جاتا ہے۔‘‘
جابر دھاتوں کو گرمی پہنچا کر ان سے کشتہ بنانا جانتا تھا۔ اس نے اس موضوع پر ایک کتاب بھی لکھی تھی۔ اس کے علاوہ اس نے اپنی کتابوں میں فولاد بنانے، چمڑا رنگنے، دھاتوں کو صاف کرنے، موم جامہ بنانے، لوہے کو زنگ سے بچانے کے لیے اس پر وارنش کرنے، بالوں کا خضاب تیار کرنے اور اسی قسم کی درجنوں مفید چیزیں بنانے کے طریقے بیان کیے ہیں۔ اس کے علاوہ جابر نے اپنی کتابوں میں تیزابوں کا ذکر بھی کیا ہے۔ وہ تیزاب بنانا جانتا تھا اور بعض ان چیزوں سے اچھی طرح واقف تھا جو آج بھی اسی شکل میں محفوظ ہیں۔ کیمیائی آلات میں جابر کی سب سے اچھی ایجاد قرع انبیق ہے جس سے کشید کرنے، عرق کھینچنے اور ست یا جوہر تیار کرنے کا کام لیا جاتا تھا۔
جابر نے اپنی تحقیقات سے علم کیمیا کو ایک نیا روپ دیا اور اسے کہیں سے کہیں پہنچا دیا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ عرب کے ایک بدوی قبیلے کا ایک بچہ جو بالکل چھوٹی عمر میں ہی یتیم ہو گیا تھا، کس طرح اس مرتبے تک پہنچا کہ کیمیا کی تاریخ اسے فراموش نہیں کر سکتی۔ مغرب نے اس سے بہت کچھ سیکھا۔ آج یورپ میں اسے Jeber کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اسلامی عہد میں سنہری کارنامے انجام دینے والایہ سائنس دان 817ء میں فوت ہوا جب اس کی عمر پچانوے سال تھی۔
0 Comments