Science

6/recent/ticker-posts

ابن باجة : مغربی مسلمانوں میں پہلا بڑا فلسفی

ابوبکر محمد ابن باجة سارا گوسا میں 1138ء میں پیدا ہوا۔ یورپ میں ابن باجة کو Avempace کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ اس دور کے تقاضوں کے مطابق ابن باجة نے کئی علوم میں مہارت حاصل کی، جن میں سائنسی و فقہی علم کے علاوہ فلسفے میں بھی خصوصی دلچسپی لی۔ وہ کچھ عرصہ سارا گوسا کے گورنر کا وزیر رہا، مگر سارا گوسا پر عیسائیوں کے قبضے کے بعد وہ شمالی افریقہ چلا گیا۔ مغربی مسلمانوں میں یہ پہلا بڑا فلسفی ہے لیکن سپین میں فلسفہ مشرقی مسلمانوں کے ذریعے ہی پہنچا تھا۔ ابن باجة فارابی کا بہت معتقد تھا اور اس کی فلسفیانہ تحریروں میں فارابی کا فلسفہ ہی چھایا ہوا ہے۔ ایک بات میں ابن باجة کی اہمیت زیادہ ہے۔ وہ یہ کہ اس نے ارسطو کی اصل کتابیں بڑی باریک بینی سے پڑھیں اور ان کی تشریحات لکھیں، جن سے یورپ کافی متاثر ہوا لیکن غالباً سب سے زیادہ سینٹ تھامس اکئیانس متاثر ہوا۔ 

انسانی عقل کے متعلق ابن باجة کہتا ہے ’’انسانی عقل کے دو حصے ہیں، ایک عقل فعال اور دوسری مادی عقل، مادی عقل انسانی جسم سے مشروط ہے، جو جسم کے فنا ہو جانے سے خود بھی فنا ہو جاتا ہے لیکن عقلِ فعال غیر مادی، غیر جسمی اور لافانی ہے، فعال عقل انسان میں سب سے زیادہ ہے اور اس کا کام یعنی ’فکر کرنا‘ انسان کا سب سے عظیم کام ہے اور فکر کے ذریعے ہی انسان خدا کو پہچان سکتا ہے اور اس سے یکجا ہو سکتا ہے۔‘‘ ابن باجة فکری عمل کو ریاضت و تصوف پر فوقیت دیتے ہوئے، اسے حقیقت کبریٰ تک پہنچنے کا ذریعہ سمجھتا ہے، مگر یہ فکری عمل خاموشی اور تنہائی کے بغیر مشکل ہے۔ اس کے لیے مفکر کو انسانوں کے ہجوم سے پرے جا کر کچھ سوچنا چاہیے یا ایسی بستی آباد کرنی چاہیے جہاں صرف مفکر ہوں۔ بالواسطہ طور پر وہ سقراط والی بات کرتا ہے کہ جب لوگ اجتماعی شکل میں جمع ہوتے ہیں تو ان کی سوچ سطحی اور بے وقوفانہ ہو جاتی ہے۔ 

اکبر لغاری

(کتاب ’’فلسفے کی مختصر تاریخ‘‘ سے اقتباس)

 

Post a Comment

0 Comments