Science

6/recent/ticker-posts

سائنسی انداز فکر کیا ہے؟

کائنات اور اس کے مظاہر کو سمجھنے کی کسی شعوری کوشش کے بغیر ہم اپنی زندگی کے روزانہ مشاغل میں بے فکری سے مصروف رہتے ہیں۔ نہ ہم اس کو کوئی اہمیت دیتے ہیں نہ اس طرف کوئی خیال جاتا ہے کہ وہ کون سی ’’مشینری‘‘ ہے جو سورج کی دھوپ کو پیدا کرتی ہے یا کس وجہ سے زمین پر زندگی کا وجود ہے۔ ہم اس کشش ثقل کی طرف بھی کوئی توجہ نہیں دیتے جس کی وجہ سے ہم زمین پر قائم ہیں ورنہ اس کشش ثقل کے بغیر تو ہم زمین سے اڑ کر فضا میں پہنچ جاتے۔ ان ایٹمی ذروں کی طرف بھی کوئی دھیان نہیں جاتا جس سے ساری کائنات، ہماری زمین، سارے جاندار اور ہم خود بنے ہوئے ہیں اور جن کی استقامت پر ہم بنیادی طور پر بھروسہ کرتے ہیں۔

انسانی فطرت میں شوق تجسس ذوق و شوقِ تجسس انسانی فطرت میں داخل ہے۔ جو شخص جتنا ذہین ہوتا ہے اس میں کرید کا مادہ اور شوق تجسس اتنا ہی زیادہ ہوتا ہے۔ کائنات اور اس کے مظاہر کے متعلق ہر ذہین انسان سوچتا ہے۔ تہذیب کے ہر دور میں لوگ ایسے سوال پوچھتے رہے ہیں اور ان کے ذہنوں میں جستجو رہی ہے کہ کائنات ایسی کیوں ہے جیسی وہ ہے اور یہ کہ کائنات کیسے وجود میں آئی اور کہاں سے آئی ہے۔ حضرت غالب کے ذہن میں بھی کافی تجسس تھا۔ دریافت فرماتے ہیں: سبزہ و گل کہاں سے آئے ہیں ابر کیا چیز ہے ہوا کیا ہے مزید یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا کائنات ہمیشہ سے موجود تھی؟ اور اگر اس کا آغاز ہوا تو کیسے ہوا؟ بچوں کی فطرت میں شوق تجسس بے حد ہوتا ہے۔ وہ قدرتی طور پر ہر طرح کے سوال کرتے ہیں اور ہر چیز کی نوعیت اور ماہیت کو جاننا چاہتے ہیں۔

موجودہ زمانے میں بعض ذہین بچے تو یہاں تک جاننا چاہتے ہیں کہ بلیک ہول کیا ہوتا ہے اور مادہ کا سب سے چھوٹا ذرہ کون سا ہے؟ ہمارے معاشرے میں یہ عام قاعدہ ہے کہ بچے اگر اپنے والدین یا استادوں سے ایسے چبھتے ہوئے سوال کریں اور اگر جواب معلوم نہ ہو تو لاعلمی چھپانے کے لیے یا تو اپنے کندھے اچکا دیتے ہیں یا بعض لوگ بے حد گھبرا جاتے ہیں۔ اس لیے کہ انسانی سوجھ بوجھ کی حد اس قدر واضح طور پر سامنے آ جاتی ہے۔ بچوں کا اپنے والدین پر مکمل انحصار اور اعتماد ہوتا ہے لیکن جب بچے ان سوالوں کا تسلی بخش جواب نہیں پاتے اور انہیں ڈانٹ کر خاموش کر دیا جاتا ہے تو رفتہ رفتہ ان کی تجسس کی حس اور انفرادی آزادانہ سوچ بچار کی قابلیت مدھم یا مفقود ہو جاتی ہے۔

سائنس کو انسانی فطرت اور کائنات کے عوامل اور مظاہر سے کسی طور جدا نہیں کیا جا سکتا ۔ سماجی، معاشی، معاشرتی، سیاسی، مذہبی اور فلسفیانہ مسائل سے سائنس کا ہر قدم پر واسطہ پڑتا ہے اور کبھی کبھی ٹکراؤ بھی ہو جاتا ہے۔ سائنسی تکنیک سے ہر شخص فائدے حاصل کر سکتا ہے۔ سائنس دان اپنا نقطہ نظر پیش کر دیتے ہیں لیکن اس پر اصرار نہیں کرتے کہ یہ حرف آخر ہے۔ سائنس کی بنیاد سائنس خیالی مفروضوں پر مبنی نہیں ہے۔ اس کی بنیاد بیشتر تجربوں پر ہے۔ تجربوں کے دوران واقعات کی دریافت اور مشاہدات سے ان پر غور و خوض کے بعد ایک مفروضہ یا ہائپوتھیسس بنایا جاتا ہے۔

اگر بعد کے تجربات یا دوسرے سائنس دانوں کے آزادانہ تجربوں سے اس کی توثیق ہوتی ہے تو اسے قبول کر لیتے ہیں ورنہ یا تو اسے رد کر دیا جاتا ہے یا اس میں ضروری ترمیم اور تبدیلی کر لی جاتی ہے۔ نئے تجربے اور مشاہدات مسلسل جاری رہتے ہیں جن کی بنیاد پر نئے مفروضے اور کلیے بنائے جاتے ہیں۔ سائنس کا علم ہمیشہ آزمائشی اور تجرباتی ہے جس میں دیر یا سویر موجودہ نظریوں میں تبدیلیاں متوقع ہوتی ہیں۔ اس کا احساس رہنا چاہیے کہ سائنس کا طریق کار ہی ایسا ہے کہ منطقی طور پر کسی مکمل یا آخری حل کا حاصل کرنا ناممکن ہے۔ اسے لازمی طور پر ایسا ہونا ہی چاہیے کیوں کہ سائنس کا علم ہمیشہ تغیر پذیر اور ارتقائی ہے۔

مزید علم اور نئی معلومات کے ساتھ تبدیلیاں اس لیے ضروری ہیں کہ مفروضوں اور نظریوں کی زیادہ سے زیادہ صحت حاصل ہو سکے۔ پھر بھی پرانے نظریے قابل عمل رہتے ہیں اور ان سے حاصل شدہ فائدوں سے استفادہ جاری رہتا ہے اور ان نظریوں کی عملی صداقت قائم رہتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ سائنس مطلق صداقتوں (Absolute Truth ) کی کھوج اور تفتیش کی تائید نہیں کرتی بلکہ اس سے دور رہنے کی تلقین کرتی ہے۔ اس لیے کہ سائنس میں مطلق صداقت کا کوئی وجود نہیں ہے۔ نئے تجربے اور انوکھے خیالات گتھیوں کو مسلسل سلجھانے اور فطرت کے رازوں کا انکشاف کرتے رہتے ہیں۔ سائنس کا مقصد سائنس کا مقصد یہ جاننے کی کوشش ہے کہ کائنات اور یہ دنیا کیسے بنی ہے اور زندگی کس طرح پیدا ہوئی اور یہ کہ کائنات کیسے کام کرتی ہے۔

اس امر کی کوشش کی جاتی ہے کہ کائنات کے اندرونی رازوں کا انکشاف کیا جائے مثلاً تحت ایٹمی ذروں (sub atomic particles) جن سے کہ ساری کائنات بنی ہے ان کی نوعیت اور ماہیت دریافت کی جائے۔ اس کے علاوہ یہ بھی مقصد ہوتا ہے کہ حیاتیاتی انواع اور انسان کی معاشی اور معاشرتی تنظیم بلکہ بحیثیت مجموعی پوری کائنات کا جائزہ لیا جائے اور اس کی اصلیت دریافت کی جائے۔ اس سلسلے میں محض جبلت اور چھٹی حس دھوکا دے سکتی ہے۔ سائنسی رویہ سائنس بنیادی طور پر ایک رویہ اور انداز فکر ہے نہ کہ محض معلومات کا ذریعہ۔ سائنٹفک رویہ اب ایک عام گھریلو لفظ بن گیا ہے لیکن اس کے صحیح مفہوم سے کم ہی لوگ آشنا ہیں۔ اس لیے یہ برمحل بلکہ بے حد ضروری ہے کہ سائنٹفک رویہ کی صحیح تعریف سے کماحقہ، واقفیت حاصل کی جائے۔ سائنسی رویہ کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ کائنات اور اس کے مظاہر فطرت، انسانی ذہن، اس کے شعور اور لاشعور کو سمجھنے کی کوشش کی جائے اور ان کو سمجھنے کے قابل بنایا جائے۔ 

ڈاکٹر محمود علی

(کتاب ’’فلسفہ سائنس اور کائنات‘‘ سے اقتباس)
 

Post a Comment

0 Comments