Science

6/recent/ticker-posts

سائنس کی دلچسپ دنیا : ڈاکٹر عطاء الرحمٰن

سائنس کے تقریباً ہر شعبے میں حیرت انگیز دریافتیں وقوع پزیر ہو رہی ہیں جو کہ ہماری زندگی میں ایک غیر متوقع انداز سے اثر انداز ہو رہی ہیں۔ مصنوعی ذہانت کا شعبہ جس رفتار سے ارتقا پذیر ہے اس سے اس سیارے سے انسانی نسلوں کے ختم ہونے کا واضح خطرہ لاحق ہو گیا ہے لہٰذا اس شعبے کے ارتقاء کو فوری طور پر سنبھالنے کی ضرورت ہے۔ الیکٹرک کار کی کمپنی ٹیسلا اور خلائی نقل و حمل کی کمپنی SpaceX کے سربراہ، ایلون مسک (Elon Musk) نےاس ابھرتے ہوئے خطرے پر ایک انتباہ جاری کیا ہے۔ انہوں نے حال ہی میں امریکہ میں قومی گورنرز ایسوسی ایشن کے موسم گرما کے اجلاس میں مختلف امریکی ریاستوں کے گورنرز سے خطاب کرتے ہوئے خبردار کیا کہ مصنوعی ذہانت ’’سب سے بڑا خطرہ ہے جس کا اس تہذیب کو سامنا ہے ‘‘۔ 

انہوں نے مزید کہا کہ وہ وقت زیادہ دور نہیں۔ اگر مناسب اقدامات نہ کئے گئے تو بہت دیر ہو جائیگی کیونکہ ہم کچھ ہی عرصے میں روبوٹ استعمال کر رہے ہونگے جو ہر طرح سے ہمارے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوشیار ہوں گے، اور وہ اپنی غلطیوں سے تیزی سے سیکھنے کے قابل ہو جائیں گے حتیٰ کہ انسانوں سے کہیں زیادہ ذہین ’’انواع‘‘ اگلی چند دہائیوں میں بن جائیں ۔ صنعتیں جلد ہی خود مختار ہو جائیں گی اور نتیجے میں کروڑوں افراد بے روزگار ہو جائیں گے۔ اس سےقومی سلامتی کو بھی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ اگر مناسب قواعد و ضوابط پر عملدرآمد نہیں کیا گیا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ کافی بڑی تعداد میں حکومتیں ان      آنے والے حالات و خطرات سے نا آشنا ہیں۔ لہٰذا اس سلسلے میں ضروری کارروائی کی فوری ضرورت ہے اس سے پہلے کہ معاملات ہمارے اختیارسے باہر نکل جائیں۔ فلم سیریز ’ دی ٹرمینٹر‘ میں پیش کردہ منظر ایک حقیقت بننے جا رہا ہے۔ جنگوں میں انسانی فوجیوں کی جگہ مشینیں لڑا کریں گی جوانسانوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوشیار ہیں، اور ہوشیار ترین کمپیوٹرز والے ممالک دنیا پر حکومت کریں گے، وہ دن زیادہ دور نہیں جب انسانوں کی ضرورت ان کی کمزوریوں مثلاً غصہ وغیرہ کی وجہ سےختم ہو جائیگی اور ’برقی انواع‘ غالب ہو جائیں گی جو عمر کی قید سے مستثنیٰ اور ہر لحاظ سے سمجھدار ہونگی۔ مسک نے کہا کہ جب لوگوں کو اندازہ ہو گا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے تو وہ بہت ڈر جائیں گے۔

ایک اور شعبہ جو بڑی تیزی سے ترقی کی جانب گامزن ہے وہ جینیات کا شعبہ ہے۔ نباتات و حیوانات میں جینیاتی معلومات ان کےجین میں موجود ہوتی ہیں۔ ایک چھوٹے سالماتی ہار (ڈی این اے) کا تصورکریں جس میں 3 ارب موتی پروئے ہوئے ہیں۔ یہ موتی چار اقسام کے ہوتے ہیں، اوران موتیوں کی ترتیب ہم انسانوں کے بارے میں، ہمارے رنگ، قد، ہمارے جسم کی ساخت، ہماری ذہانت اور بیماریوں سے ہماری قوت مدافعت کی حدود وغیرہ سب کچھ بتاتی ہے۔ یہ ترتیب جینیاتی کوڈ کے طور پر جانی جاتی ہے۔ 2007ء میں انسانوں میں پہلا کوڈ پروفیسر جم واٹسن کا متعین کیا گیا تھا اگرچہ ا یک جزوی انسانی جینوم کے تعین کے بارے میں 2003 ءمیں امریکی صدر بل کلنٹن کی طرف سے بھی اعلان کیا گیا تھا۔ اس دریافت میں کئی ملین ڈالرکی لاگت آئی تھی اور کئی سال لگے تھے۔ 

اب تیزی سے جینوم کی ترتیب معلوم کرنے والی مشینیں دستیاب ہیں، یہ ایک ہفتےکےاندر اندر تقریباً پانچ ہزارڈالر کی لاگت پر ترتیب معلوم کر سکتی ہیں۔ جامعہ کراچی میں جمیل الرحمٰن مرکز برائے جینیاتی تحقیق، میرے والد کے نام سے اور میرے ذاتی عطیے سے بنایا گیا ہے، اس میں پاکستان کےسب سے جدید و اعلیٰ درجے کے جین کی ترتیب معلوم کرنے والے آلے نصب کئے گئے ہیں اور یہاں انتہائی کمال فن کے ساتھ انسانی اور نباتاتی جین پر تحقیقات جاری ہیں۔ گزشتہ 10 سالوں میں اس میدان میں حیرت انگیز پیش رفت ہوئی ہے۔ چونکہ ایک نوع کی تمام خصوصیات اس کی جینیاتی ترتیب سے طے کی جاتی ہیں، لہٰذا اب یہ ممکن ہو گیا ہے کہ مخصوص خصوصیات کے حامل جین کو دوسرے انواع کے پودوں یا جانوروں میں منتقل کیا جائے تاکہ اس نوعیت کی خصوصیات ان جانوروں اور پودوں میں بھی پیدا ہو جائیں۔

ہم میں سے بہت سے لوگ جگنوؤں کواندھیرے میں چمکتا ہوا دیکھ چکے ہیں، یہ کیسے ہوتا ہے؟ اس کے پس پردہ دلچسپ بنیادی کیمیائی مرکب "luciferin" ہوتا ہے۔ Luciferin کو آکسیجن کے ساتھ یکجا کر سکتے ہیں، اور نتیجے میں روشنی خارج ہوتی ہے۔ اسی طرح چمکنے کا طریقہ کار گہرے سمندر میں رہنے والی جیلی مچھلی میں بھی موجود ہوتا ہے جو گہرے سمندر میں اپنے ارد گرد کا ماحول روشن کر دیتی ہے۔ کچھ سال پہلے کچھ اسرائیلی سائنس دانوں نے روشنی کی پیداوار کے ذمہ دار جینوں کوشناخت کر کے اور انہیں اورکیڈ کے پھولوں میں منتقل کرنے میں کامیابی حاصل کی اور نتیجے میں ایسے آرکیڈ پھول حاصل ہوئے جو اندھیرے میں چمک سکتے تھے۔ اسی طرح دیگر نباتاتی جینیاتی خصوصیات جیسے مختلف بیماریوں سے مدافعت وغیرہ کو گندم، مکئی، چاول اور دیگر فصلوں میں داخل کیا جا رہا ہے، اور جینیاتی طور پر ترمیم شدہ فصلیں دنیا کے مختلف حصوں میں وسیع پیمانے پر لگائی جا رہی ہیں۔

اسکے علاوہ خلوی جاندار جو خود دوبارہ اپنی افزائش نسل بھی کر سکیں کو مصنوعی طریقے سے لیبارٹری میں پیدا کرنے کی شاندار کوشش بھی کی جا رہی ہے۔ امریکہ میں جے کریگ وینٹر انسٹی ٹیوٹ کے ڈان گبسن اور ان کے ساتھیوں نے2013 ء میں سائنسی جریدے ’’سائنس‘‘ میں بیکٹیریل جینوم کے پورے حصے کی تیاری کی اطلاع دی تھی جو کہ مصنوعی طور پر (تیار کردہ) 582 ،970 بنیادی حصوں کی جوڑیوں کی ایک بڑی تعداد پر مشتمل تھا جسے ایک جراثیم ( Mycoplasma genitalium) کے ماڈل پر تیار کیا گیا تھا۔اب وہ وقت زیادہ دور نہیں جب زندگی کی عمارت کے ان بنیادی افعال کی ایک گہری تفہیم کے بعد، ہم اپنی ضروریات کے مطابق نئے پودے اور جانوروں کی انواع و اقسام لیبارٹری میں پیدا کرنے کے قابل ہو جائیں گے بلکہ یہ عمل شروع ہو بھی چکا ہے۔

تیز رفتار ترقی کی جانب گامزن ایک اور شعبہ نئے مواد کا ہے۔ اب آپ چیزوں کا ایک مخصوص مواد سےاحاطہ کر سکتے ہیں جو انہیں پوشیدہ بنا سکتی ہیں اس مواد کو’’metamaterials‘‘ کے طور پر جانا جاتا ہے اس مواد میں روشنی کو موڑنے کی قابل ذکر صلاحیت ہوتی ہے۔ اس مواد کو امریکہ اور جرمنی کے سائنسدانوں نے تیار کیا ہے اور اب یہ دشمن سے ٹینکوں، طیاروں اور آبدوزوں کو پوشیدہ کرنے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ آج چشم زدن میں غائب ہونے والا جادو کا چوغہ ایک حقیقت بن گیا ہے۔ حالیہ برسوں میں تیار کیا گیا ایک اور مواد ’گریفین‘ ہے۔ یہ خالص کاربن سے بنا ہوتا ہے، یہ لوہے سے تقریباً 200 گنا زیادہ مضبوط ہوتا ہے اور اس کا برقیات کی صنعت، دواسازی اور گھریلو آلات وغیرہ میں استعمال ہوتا ہے۔ جامعہ مرکزی فلوریڈامیں سب سے ہلکا ٹھوس مواد بھی تیار ہو گیا ہے۔ یہ اسقدر ہلکا ہے کہ اسے’منجمد دھواں‘ کا بھی نام دیا گیا ہے۔ یہ ایک نیم شفاف مواد’ ایرو جیل‘ ہے جو کاربن کی باریک نلکیوں سے بنا ہے۔ ایرو جیل 99.8 % ہوا پر مشتمل ہوتے ہیں اور شیشے سے ہزار گنا ہلکے ہوتے ہیں۔ یہ کاربن فائبر مواد کے مقابلے میں 39 گنا بہتر موصل ہوتے ہیں۔

یہ مواد انتہائی لچکدار ہوتا ہے، اور ہزار گنا کھنچاؤ کی صلاحیت رکھتا ہے۔ مندرجہ بالا شعبوں میں پاکستان میں کام ان شاءاللہ اگلے سال سے پاک آسٹرین جامعہ برائے اطلاقی انجینئرنگ اور ٹیکنالوجی جو کہ ہری پور ہزارہ میں واقع ہو گی اور پاک-اطالوی جامعہ برائے انجینئرنگ اور ٹیکنالوجی جو کہ لاہور نالج پارک میں قائم کی جا رہی ہیں کی سرپرستی میں شروع ہو جائے گا ۔ یہ دونوں جامعات میری پیش کردہ تجاویز پر دونوں صوبائی حکومتوں کی جانب سے قائم کی جا رہی ہیں۔ دونوں جامعات کی اسٹیئرنگ کمیٹی کے چیئرمین کے طور پر میری کوشش ہے کہ اہم تجارتی پیش رفت ممکن ہو سکے اور ممتاز غیر ملکی اداروں کی ڈگری پاکستانی طالب علموں کو اپنے ملک سے باہر جائے بغیر حاصل ہو سکے۔

پاکستان تاریخ کے اس دوراہے پر کھڑا ہے جہاں ملک میں بیس سال کی عمر کے نوجوانوں کی تعداد تقریباً دس کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ ہمیں چاہئے کہ ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لئے ہم انہیں ایسی تعلیم دیں جہاں سائنس، ٹیکنالوجی، جدت طرازی اور تجارتی مہم جوئی پروان چڑھ سکے۔ تب ہی پاکستان تیزی سے ایک مضبوط قوم کے طور پر ابھر کر سامنے آ سکتا ہے جیسا کہ چین نے کیا ہے ۔ تاہم اگر ہم تعلیم اور سائنس کو نظر انداز کرنا جاری رکھتے ہیں جیسا کہ پاکستان کی متعدد حکومتوں نے کیا ہے تو پھریہ ملک کی سب سے بڑی بدقسمتی ہو گی۔

ڈاکٹر عطاء الرحمٰن
 

Post a Comment

0 Comments