Science

6/recent/ticker-posts

ڈاکٹر محمد یونس غربت کے خاتمے کے ماہر معاشیات دان

عالمی شہرت یافتہ ’گرامین بینک‘ کے بانی ماہر تعلیم اور معیشت دان محمد یونس
اور ان کے بینک کو 2006ء میں امن کا نوبیل انعام دیا گیا۔ اس بینک نے چھوٹے قرضے دینے کی ایسی روایت کا آغاز کیا، جس نے دنیا بھر میں بینکاری کو ایک نئے رجحان سے متعارف کروایا۔ گرامین کا لفظ ’گرام ‘ سے نکلا ہے، جس کا سنسکرت زبان میں مطلب دیہی ہے۔ یوں گرامین بینک کا مطلب دیہاتوں کا بینک ہے۔ 1976ء میں گرامین بینک کی داغ بیل ڈالی گئی تھی۔ چٹاگانگ یونیورسٹی میں محمد یونس نے ایک تحقیقی منصوبے کا آغاز کیا ،جس کا مقصد ایسا نظام وضع کرنا تھا، جس کے تحت دیہی کسانوں اور مزدوروں کو آسان شرائط پر چھوٹے قرضے فراہم کیے جائیں اور پھر ان کی واپسی کو بھی یقینی بنایا جائے۔ اس منصوبے کے تحت جو نظام بنایا گیا، اس کو 1988ء میں’’ورلڈ ہیبیٹیٹ ایوارڈ‘‘ ملا۔ 1976ء میں محمد یونس نے کسانوں کو قرضے دینے کا نظام متعارف کرایا۔
قریباً سبھی بینکوں نے تب غریب کسانوں کو قرض دینے سے انکار کردیا تھا کیونکہ ان کا خیال تھا کہ غریبوں سے قرض کی واپسی نہایت مشکل ہوتی ہے۔ ان کے پاس گروی رکھنے کو کچھ بھی نہیں ہوتا اور نہ ہی ان کے خلاف قانونی کارروائی ہونے کی صورت میں ان کے پاس کوئی ایسی قیمتی شے برآمد ہوتی ہے، جسے دے کر وہ اپنے قرض کی رقم چکا سکیں۔ محمد یونس کے متعارف کردہ نظام کے تحت قرض کی واپسی کو یقینی بنانے کے لیے مخصوص نظام دیا گیا تھا۔ چٹاگانگ یونیورسٹی ڈھاکہ کے استاد محمد یونس کو 1965ء میں فل برائٹ سکالرشپ ملا اور وہ وینڈربلٹ یونیورسٹی سے معاشیات میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری لے کر 1972ء میں ڈھاکہ لوٹے تو انہیں چٹاگانگ یونیورسٹی میں معاشیات کے شعبے کا سربراہ متعین کیا گیا۔

یہ وہ دور تھا جب بنگلہ دیش کی معیشت کو سمندروں طوفانوں اور غربت نے مسمار کرکے رکھ دیا تھا۔ ڈاکٹر محمد یونس نے غربت کی وجوہ اور اس کے سدباب کے عوامل پر تحقیق کی اور بنگلہ دیش کے کسانوں اور ماہی گیروں کی معاشی صورت حال کو بہتر بنانے کے مختلف منصوبوں پر سوچ بچار کیا۔ انہوں نے اپنے طلبا کو ساتھ لیا اورایک مشنری جذبے کے ساتھ غریب کسانوں کو تربیت دینے کے منصوبوں پر عمل کا آغاز کیا، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ انہیں احساس ہوا کہ محض تربیت دینا ہی غربت کے خاتمے کے لیے کافی نہیں ۔ غریب کسانوں کو روپے کی ضرورت ہوتی ہے، جسے استعمال کرکے وہ محدود سطح کے کاروبار شروع کریں، اوزار خریدیں، کھیتی باڑی کے لیے کھاد حاصل کریں اور اپنی فصلوں کو مارکیٹ تک لے جائیں۔ قرض پر روپیہ دینے والے مقامی ساہوکار بھاری سود پر رقم دیتے تھے، جو کسانوں کو مسلسل قرض کی حالت میں قید کردیتی تھی۔ ڈاکٹر محمد یونس نے کسانوں کوآسان شرائط پر محدود پیمانے پر چھوٹے قرضے دینے کے منصوبوں کا اجرا کیا۔

اس نظام کے تحت پچیس ڈالر سے کم مالیت کے قرض حاصل کرنے والے لوگ ایک گروپ میں شامل ہوجاتے۔ یہ گروپ نہ صرف کسان کی معاونت کرتا بلکہ اس پر اخلاقی دباؤ کا کردار بھی ادا کرتا اور اسے قرض لوٹانے پر مجبور کرتا۔ اس گروپ میں شامل لوگ قرض واپس کرانے کے ذمہ دار نہ ہوتے، لیکن اگر قرض دار رقم واپس نہ کرتا یا اس کی واپسی میں ٹال مٹول کرتا، تو اس پر اخلاقی دباؤ ڈالتے اور اسے قائل کرتے کہ ایک اس کی وجہ سے یہ سارا نظام جس سے ہزاروں لوگ مستفید ہورہے ہیں، غیر مستحکم ہوجائے گا۔ ڈاکٹر محمد یونس کسانوں کی غربت کے مسئلے کے حل کے لیے ابتدائی طورپر کسانوں کے 42 کنبوں کو چھوٹے قرضے فراہم کیے تا کہ وہ محدود پیمانے کے کاروبار شروع کرسکیں۔

اس تجربے میں کامیابی نے محمد یونس کو اپنے نظام کی اثرانگیزی کا قائل کیا۔ ساتھ ساتھ محمد یونس نے اپنی تحقیق کی بنیاد پر گرامین بینک کے لیے قوانین وضع کیے۔ 1976ء میں ایک گاؤں جوبرا اور اس سے ملحقہ دیگر دیہاتوں میں جو چٹاگانگ یونیورسٹی کے قرب و جوار میں واقع تھے، بنگلہ دیش بنک کے تعاون سے باقاعدہ طورپر چھوٹے پیمانے کے قرضوں کی فراہمی کے منصوبے کا آغاز کیا گیا۔ 1979ء میں اس منصوبے کو توسیع دی گئی او رتنگیل ضلع میں بھی متعدد دیہاتوں کو اس سے مستفید ہونے کا موقع ملا۔ اس بینک کے ذریعے ہفتہ وار ادائیگی کا فارمولہ لاگو کیا گیا۔ ساتھ ساتھ ان قرض داروں کے لیے بچت کی سکیمیں بھی متعارف کرائی گئیں۔ گرامین بینک کے قرضوں کے حوالے سے ایک اہم بات یہ ہے کہ اس میں خواتین کے لیے خصوصی مراعات فراہم کی جاتی ہیں۔ اس کے 95 فیصد قرضے وصول کرنی والی صرف عورتیں ہیں۔ ڈاکٹر محمد یونس کے تحقیقی منصوبے میں اس امر پر اصرار کیا گیا تھا کہ اگر عورتوں کو جن کو عام طورپر مردوں کی نسبت مالی ذرائع تک کم رسائی حاصل ہوتی ہے، اگر قرضے دئیے جائیں تو اس سے عام گھروں بلکہ مجموعی طورپر ملکی معیشت میں بہتری کی کوششوں کو کئی گنا زیادہ مؤثر بنایا جا سکتا ہے۔

گرامین بینک اگرچہ سرکاری سرپرستی میں کام کرتا ہے، لیکن اس کے 94 فیصد حصص اس کے قرض داروں کے پاس محفوظ ہیں جب کہ باقی 6 فیصد حصص حکومت کی ملکیت ہیں۔ 2010 ء میں ایک دستاویزی فلم کا اجرا ہونے کے بعد محمد یونس اور گرامین بینک کے خلاف کارروائی کا آغاز ہوا۔ اس فلم میں یہ الزام لگایا گیا تھا کہ ناروے کی طرف سے ڈاکٹر محمد یونس کو وصول شدہ فنڈز چھوٹے قرضوں کی صورت میں کسانوں میں تقسیم کرنا تھا، لیکن محمد یونس نے اپنے بینک کے ساتھ مل کر اس میں خرد برد کی تھی۔ اسی فلم کی بنیاد پر بنگلہ دیش کی حکومت نے بھی تفتیشی کارروائی کا آغاز کیا۔ اسی کارروائی کا نتیجہ تھا کہ 2011ء میں محمد یونس کو گرامین بینک کے منیجنگ ڈائریکٹر کے عہدے سے برخاست کر دیا گیا،جس کی وجہ ان کی قبل از وقت ریٹائرمنٹ بتائی گئی۔ محمد یونس نے اس فیصلے کے خلاف قانونی کارروائی کا آغاز کیا۔ ڈاکٹر محمد یونس کو بنگلہ دیش کا سب سے معتبر اعزاز ’’یوم آزادی ایوارڈ‘ ‘ جبکہ امریکی حکومت کی طرف سے ’’ورلڈ فوڈ پرائز‘‘ اور’’پریذیڈنشیل میڈل آف فریڈم‘‘ بھی ملا۔ وہ پہلے فرد ہیں، جنہیں ’’کنگ حسین ہیومینٹیرین ایوارڈ‘‘ سے بھی نوازا جا چکا ہے۔

محمدعاصم بٹ

 (کتاب ’’دانش ِ مشرق‘‘ سے مقتبس)

Post a Comment

0 Comments