نامور سائنسدان اور فلسفی جابر بن حیان اپنی تحریروں میں ابہام شعوری طورپر قائم رکھتے تھے اور انہیں دقیق اور دشوار فہم بنانے کی کوشش کرتے تھے، جس کی وجہ وہ خود ’’کتاب الاہجر‘‘(پتھروں کی کتاب) میں یوں بیان کرتے ہیں کہ اس کتاب کا مقصد ان شخصیات کے علاوہ جنہیں وہ عزیز رکھتے اورانہیں اعلیٰ فہم و فراست عطا کرنے کے خواہاں تھے، قارئین کو الجھاؤ کا شکار کرنا تھا،ان میں استعمال کی جانے والی علامتوں کے مفاہیم واضح نہیں ہوتے تھے۔ ان کی تحریروں کی دشوار فہمی اور ابہام ہی کی وجہ سے انگریزی میں لفظ ’گبرش‘ (gibberish) اختراع کیا گیا۔ خاص کر کیمیا کے مضمون میں جابر بن حیان نے نہایت گراں قدر اضافے کیے۔ اس فن میں ان کی دلچسپی اپنے استاد امام جعفرصادق کی وجہ سے پیدا ہوئی۔
اس استفادے کا اعتراف جابر نے متعدد موقعوں پر اپنی تحریروں میں کیا ہے۔ امام جعفر کے علم و فضل کا بنیادی دائرہ اسلامی علوم ہی کا بنتا ہے، لیکن وہ ریاضیات، فلسفہ، علم نجوم، علم الابدان جیسے علوم پر بھی گہری نظر رکھتے تھے۔ ان کی علمیت کا ایک زمانہ معترف تھا۔ امام جعفر کے شاگردوں میں جابر کے علاوہ امام ابوحنیفہ اور امام مالک بن انس بھی شامل ہیں۔ کتاب الاہجر میں جابر بن حیان مختلف جانور جیسے بچھو اور سانپ وغیرہ کی تخلیق اور حتی کہ انسانوں کی تخلیق کے فارمولے بھی بیان کرتے ہیں، جو خالق سائنس دان کے اپنے فن پر عبور پر منحصر ہوتے ہیں۔ جابر بن حیان نے مختلف دھاتوں کی خصوصیات پر تفصیلی لکھا ہے۔ وہ ارسطو کی طبیعیات سے اکتساب کرتے اور یونانی چار عناصر کائنات کی خصوصیات کو دھاتوں سے منسوب کرتے ہیں۔
ان کے خیال میں سیسہ ،مٹی کی طرح سرد اور خشک خصوصیت کا حامل ہوتا ہے جبکہ سونا ہوا کی طرح گرم اور مرطوب خصوصیت رکھتا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ ان خصوصیات کی باہمی آمیزش کی ترکیب بدل دینے سے نئی دھاتیں تیار کی جاسکتی تھیں جبکہ اس مقصد کے لیے ایک نایاب محلول ’الاکثیر‘ کی تیاری ضروری ہے، جو اس تبدیلی کے عمل کو ممکن بنا دے۔ اسی جادوئی محلول کو یورپ میں ’فلسفی کا پتھر‘ کا نام دیا گیا۔ اپنے ’پارہ اورگندھک کے نظریے‘ کے تحت وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ مختلف دھاتوں میں فرق صرف اسی بنیاد پر قائم ہوتا ہے کہ کس میں پارے اور گندھک کی کتنی خصوصیات موجود ہیں۔ جابر لکھتے ہیں کہ سبھی دھاتیں اپنی بنیاد میں پارے سے بنتی ہیں، جس میں گندھک کی آمیزش ہوتی ہے۔
اس آمیزش کے تناسب میں فرق سے دھاتوں کی ظاہری خصوصیات میں فرق پیدا ہوتا ہے، تاہم جابر کے سر پر اس بات کا بھی سہرا سجتا ہے کہ انہوں نے اسلامی دنیا میں الکیمیا کے شعبے میں تجربے کے عمل کو فروغ دیا اور اسے دھاتوں سے متعلق تمام تجربات میں ضروری قرار دیا۔ وہ لکھتے ہیں کہ جو تجربات کے ذریعے اپنے وضع کردہ کلیوں کی آزمائش کی کوشش نہیں کرتا، وہ کبھی اس فن میں اعلیٰ مہارت حاصل نہیں کر پاتا۔ جابر بن حیان سے بیس ایسے آلات منسوب کیے جاتے ہیں، جنہیں لیبارٹری میں ٹیسٹ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ان میں سے کئی ایک آج بھی لیبارٹری میں قابل استعمال ہیں، اسی طرح کئی ایک کیمیائی عمل بھی ان سے منسوب ہیں اور جن میں سے چند ایک جدید کیمیا کی بنیاد بنے۔جیسے ابال کر کئی طرح کے کیمیکلز کی صفائی کا عمل اور سٹرک ایسڈ، ٹارٹرک ایسڈ، آرسینک، جیسے کیمیکلز وغیرہ۔ کہاجاتا ہے کہ اپنے استاد امام جعفر صادق کی خواہش پوری کرنے کے لیے جابر نے ایسا کاغذ ایجاد کیا، جس پر آگ اثر نہیں کرتی تھی اور ایسی سیاہی بھی تیار کی، جس کی مدد سے رات کے اندھیرے میں بھی لکھا جا نا ممکن تھا کیونکہ اس سیاہی سے لکھے جانے والے الفاظ میں سے روشنی پھوٹتی تھی، اسی طرح انہوں نے ایسا کیمیکل بھی ایجاد کیا، جسے اگر لوہے پر لگایا جاتا تو وہ زنگ کا خاتمہ کردیتا اور کپڑے پر لگانے سے اس میں ایسی خصوصیت پیدا کرتا ،جس کی وجہ سے اس پر پانی اثر نہیں کرتا تھا۔
ازمنہ وسطی میں الکیمیا پر لکھے گئے جابر بن حیان کے مقالات کا ترجمہ لاطینی زبان میں ہوا، جس کے بعد یہ یورپ میں الکیمیا کے ماہرین کے نصاب کا لازمی حصہ بن گئے۔ ان مقالات میں جابر کی کتابیں’کتاب الصابین‘ اور ’کتاب الکیمیا‘ خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔ یہ جابر ہی تھے، جنہوں نے ’الکلی‘ کی اصطلاح اختراع کی تھی، بعدازاں یہ اصطلاح تمام یورپی زبانوں میں رائج ہوئی اور سائنسی فرہنگ کا حصہ بنی، جابر بن حیان نے دھاتوں پر تحقیق کے دائرے کو وسعت دی اور دھاتوں کے ساتھ اس تحقیق میں پودوں اور جانوروں کو بھی شامل کیا۔ کائناتی تفہیم کے عمل میں انہوں نے اعداد کی اہمیت پر بھی اصرار کیا۔ ان کے لیے 17 اور 28 کے ہندسے خصوصی اہمیت کے حامل تھے۔ اس علم میں کمال حاصل کرنے کے لیے انہوں نے فیثاغورثیوں اور نو افلاطونیوں کے عددی نظاموں سے غیر معمولی استفادہ کیا۔ انہوں نے مختلف عناصر کی خصوصیات کو اعداد سے منسوب کیا۔ جابر کا خیال تھا کہ سائنسی تحقیق کے لیے سائنس دان کا مذہبی عقائد میں پختہ ہونا نہایت ضروری ہے۔
وہ ستاروں کے انسانی اعما ل اور رویوں پر اثرات کے قائل تھے ۔ ان کا یہ خیال بھی ہے کہ ان اثرات کو دعاؤں اور عبادات کی مدد سے اپنے حق میں بدلا جا سکتا تھا۔ نٹرک اور سلفیوک ایسڈ کی ایجاد کا سہرا بھی جابر ہی کے سر سجتا ہے۔ انہوں نے سیسہ اور پوٹاشیم نائٹریٹ کی مدد سے سونے کو دیگر دھاتوں سے علیحدہ کرنے کا نظریہ پیش کیا۔ انہوں نے پارے کی صفائی کا طریقہ کار بھی وضع کیا۔ پائیلو کوئلو نے اپنے معروف ناول ’الکیمسٹ‘ میں جابر بن حیان کا ذکر کیا ہے۔ کیتھرین نیویلی نے اپنے ناول ’آٹھ اور آگ‘ میں جابر بن حیان کو ایک خیالی پراسرار شطرنج کے خالق کے طورپر پیش کیا ہے۔
جابر بن حیان ایران کے شہر طوس میں پیدا ہوئے۔ ان کا سن پیدائش 721عیسوی بتایا جاتا ہے۔ وہ عربی النسل تھے اور ان کے آباؤ اجداد کوفہ میں آ کر آباد ہوئے تھے۔ اپنی عملی زندگی کا آغاز جابر نے خلیفہ ہارون الرشید کے دور میں ایک طبیب کے طور پر کیا۔ خلیفہ ہارون الرشید کے دربار میں جابر بن حیان ماہر الکیمیا کے طورپر اس کے مصاحبین میں شامل رہے۔ اپنی ایک کتاب ’کتاب الزہرہ‘ انہوں نے خلیفہ ہارون الرشید سے منسوب کی۔ فقہ، شریعت، ریاضیات کے ساتھ انہوں نے الکیمیا کے فن میں بھی عبور حاصل کیا۔ انہوں نے یونانی اور لاطینی زبان میں ماہرین کی کتابوں کا عربی زبان میں ترجمہ بھی کیا۔ کوفہ میں ان کی ایک تجربہ گاہ موجود تھی، جس میں وہ مختلف دھاتوں کے حوالے سے تجربات کیا کرتے تھے۔ جابر کی زندگی کا بیشتر حصہ یمن میں بسر ہوا۔ کوفہ میں ان کا مطب تھا۔ وہیں انہیں عباسیوں کی سلطنت کے زوال کے بعد خلیفہ کے حکم پر ان کے اپنے گھر میں قید کر دیا گیا۔ اسی نظربندی کے دوران 815 عیسوی میں ان کی وفات ہوئی۔
0 Comments