Science

6/recent/ticker-posts

جالینوس عرب : ابو بکر محمد بن زکریا رازی

یہ درست ہے کہ مسلم فلسفے کی پوری تاریخ میں دوسرا کوئی ایسا دانشور نظر نہیں آتا، جس کے لہجے میں آزاد خیالی، روایت سے بغاوت اور تسلیم شدہ عقائد سے انحراف کی گونج اس سے زیادہ بلند ہو، لیکن اسے اس کی کڑی سزا بھگتنا پڑی۔ بڑے سروالا وہ بڈھا اپنے آخری ایام میں اندھا ہوگیا تھا اور تلخ تجربے کا زہر اس کے روئیں روئیں میں اتر چکا تھا۔ کسی شخص نے اس کو آنکھوں کی جراحی کا مشورہ دیا تو وہ بولا: ’’ہر گز نہیں۔ میں اس دنیا کو دیکھتے دیکھتے تھک گیا ہوں‘‘ ابوبکر محمد بن زکریا رازی، بیشتر مسلمان فلسفیوں کی طرح اس کی تاریخ پیدائش کا حتمی تعین نہیں کیا جا سکا۔ مختلف کتابوں میں مختلف سن پیدائش کا ذکر آتا ہے، مثلاً 850ء، 860ء، 864ء وغیرہ۔ ابو ریحان بیرونی نے اس کی تاریخ پیدائش کا سن 874ء درج کیا ہے۔ وہ ایران کے شہر رے میں پیدا ہوا اور اسی نسبت سے اہل مشرق میں رازی اور اہل مغرب میں ریزز کے نام سے معروف ہوا۔ رے ایران کے موجودہ دارالحکومت تہران سے چند میل کے فاصلے پر ہے۔

 تہران کی شان و شوکت سے اس کا کوئی مقابلہ نہیں، لیکن یہ ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا۔ یہ ایک تاریخی شہر ہے ،جو حضرت عمرؓ کے دور میں فتح ہوا، جب فنون لطیفہ کے دلدادہ ساسانی شہنشاہ یزدگرد کو عربوں کے ہاتھوں شکست کھا کر راہ فرار اختیار کرنا پڑی۔ عرب اس کو ’’الرے‘‘ کہہ کر پکارتے تھے، اسی شہر میں عباسی شہزادے مہدی نے کافی عرصہ گزارا اور اس کا بیٹا ہارون الرشید بھی یہیں پیدا ہوا۔ جب 902ء میں خلیفہ مکتفی باللہ تخت خلافت پر متمکن ہوا ،تو اس نے رازی کی شہرت سن کر اس کا تبادلہ بغداد کے سرکاری شفا خانے میں کر دیا۔ جیسا کہ فارابی کے ذیل میں ذکر ہوا، یہ دربار خلافت کے زوال کا زمانہ ہے۔

کمزور مرکزی قوت کی وجہ سے مختلف صوبائی سرداروں نے آزادی کے پرچم بلند کر رکھے تھے اور انہیں مرکز کی طرف سے آزادانہ ریاست کے قیام کے پروانے بھی مل جاتے تھے تا آنکہ اس ریاست کو کوئی اور سردار فتح کرکے اپنی قلمرو میں شامل نہ کر لیتا۔ ایسی ہی ایک ریاست مکتفی کی تخت نشینی سے تیس سال قبل ترکستان میں قائم ہوئی۔ یہ سامانی سلطنت تھی ،جس کا پایہ تخت بخارہ میں تھا۔ رفتہ رفتہ یہ سلطنت ایران کے شمالی علاقوں تک پھیل گئی، جس میں رے بھی شامل تھا۔ نصر بن احمد بن اسد اس آزاد سلطنت کا پہلا حکمران ہے۔ اپنے مورث اعلیٰ اسد بن سامان کے نام پر یہ حکمران سامانی کہلائے۔ نصر بن احمد کے دو بھائی اور بھی ہیں، اسماعیل بن احمد اور اسحاق بن احمد، جن دنوں سامانی حکومت کی باگ دوڑ نصر بن اسماعیل کے ہاتھ میں آئی، تو اس نے اپنے چچا زاد بھائی منصور بن اسحاق کو رے کا گورنرمقرر کر دیا۔ 

یہی منصور بن اسحاق تھا، جس نے عنان حکومت ہاتھ میں لیتے ہی سرکاری شفا خانے کو وسعت دینے کا فیصلہ کیا اور رازی کو، جو اُن دنوں بغداد میں تھا، ایک بار پھر اس کے آبائی وطن رے واپس لے آیا۔ یہ 904ء کا واقعہ ہے جب اسے رے کے شفا خانے کا افسر اعلیٰ مقرر کیا گیا۔ یہیں پر اس نے اپنے سالہا سال کے طبی تجربوں پر مشتمل یادداشتوں کو اپنی پہلی عظیم کتاب کی صورت میں پیش کیا اور اس کا نام اپنے مربی منصور بن اسحاق کی نسبت سے ’منصوری‘ رکھا۔ اس کتاب کی وجہ سے اس کی شہرت پوری عباسی سلطنت میں پھیل گئی۔ اسے اپنے وقت کا سب سے بڑا طبیب تسلیم کرلیا گیا اور جالینوس عرب کا خطاب دیا گیا۔ 908ء میں جب رے میں منصور کا زمانہ اقتدار ختم ہوا، تو اسے بغداد کے مرکزی شفا خانے کا عہدہ افسر الاطباء پیش کیا گیا۔ یہ اس وقت عالم اسلام کا سب سے بڑا شفا خانہ بھی تھا۔ اس عہدے پر وہ چودہ برس فائز رہا۔ یہ تمام مدت اس نے عام معالجات کے علاوہ تحقیق و تصنیف میں گزاری۔ انہی دنوں اس کی سب سے بڑی کتاب’’حاوی‘‘ تالیف ہوئی جسے عظیم طبی انسائیکلوپیڈیا کی حیثیت حاصل ہے۔

اس کی وفات تک یہ کتاب نامکمل تھی۔ وہ خود اسے مرتب نہ کر سکا۔ اس کی وفات کے بعد اس کا مسودہ ایک وزیر نے اس کی بہن سے زر کثیر صرف کرکے خریدا۔ یہ پراگندہ حالت میں تھا، لہٰذا رازی کے شاگردوں سے مرتب کراکے اس کی اشاعت کا انتظام کیا گیا۔ اس کی جلدوں کی تعداد میں اختلاف ہے۔ کسی نے یہ تعداد 18 کسی نے 20 اور کسی نے 30 بتائی ہے۔ اس کی مختلف جلدیں یورپ کی مختلف لائبریریوں میں بکھری پڑی ہیں۔ بطور طبیب رازی نے جو شہرت سمیٹی، اس کی کوئی مثال نہیں ملتی اور یہ بات ضرب المثل کی طرح مشہور ہے کہ جالینوس نے طب کو زندہ کیا، رازی نے اس کی شیرزاہ بندی کی اور ابن سینا نے اس کی تکمیل کی۔ اس کی تاریخ وفات میں بھی اختلاف ہے۔

قیاس ہے کہ اس نے 935ء میں وفات پائی۔ علامہ ابن ابی اصیبعہ نے اپنی کتاب ’’طبقات الاطباء‘‘ میں ایک وزیر کے ہاتھوں اس کی خفیہ پھانسی کی خبر دی ہے، لیکن کسی اور حوالے سے اس کی تصدیق نہیں ہوتی۔ مولانا عبدالسلام ندوی نے اپنی کتاب میں رازی کے دو شعر درج کیے ہیںجس کا مطلب ہے: ’’بڑھاپے نے مجھے یہ خبر تو دے دی ہے کہ مجھے جلد سفر کرنا ہوگا، لیکن میں یہ نہیں جانتا کہ مجھے کہاں کا سفر کرنا ہوگا اور میری روح بوسیدہ جسم سے نکل کر کہاں جائے گی‘‘۔ 

(ظفر سپل کی کتاب’’مسلم فلسفے کا تاریخی ارتقاء: الکندی سے ابنِ خلدون تک‘‘ سے مقتبس)

Post a Comment

0 Comments