معروف سیاح،ماہر علم نجوم اور تاریخ دان 973ء میں خراسان کے شہر خوارزم
کے ایک گاؤں بیرون میں پیدا ہوئے،اسی نسبت سے وہ البیرونی کہلائے۔ بہت چھوٹی عمر میں البیرونی نے عربی اور فارسی زبانوں پر عبور حاصل کرلیا اور اسلامی علوم کے ساتھ ساتھ سماجی و دیگر علوم میں بھی دست گاہ حاصل کی۔ خاص کر ریاضیات اور علم نجوم میں انہوں نے غیر معمولی مہارت حاصل کی اور بہت تھوڑی مدت میں اپنے دور کے ممتاز علما ء میں اپنی جگہ بنالی۔ البیرونی کا دور اسلامی دنیا کے انتشار کا دور تھا۔ انہوں نے چھے مختلف بادشاہوں کے ساتھ ان کے مصاحبین خاص کے طور پر کام کیا۔ قریباً سبھی بادشاہ قتل کردیے گئے، لیکن ہر بادشاہ نے ان کی علمی قدر و منزلت میں کمی نہیں آنے دی۔ انہوں نے اپنی علمی خدمات کی بنیاد پر دنیائے اسلام کے جامع العلوم شخص کا رتبہ حاصل ہوا۔
بیس برس کی عمر میں البیرونی اعلیٰ تعلیم کے لیے گھر سے نکل کھڑے ہوئے ۔تین سال وہ ایران میں مختلف علوم و فنون کے ماہرین سے ملے اوراُن سے علم کے مختلف شعبوں میں اکتساب فیض کیا۔ آخر وہ ایران کے شمال میں ایک چھوٹے شہر جیوران میں رہائش پذیر ہوئے، جہاں انہیں مقامی حکمران شمس المعالی قبوس کی سرپرستی حاصل ہوئی، وہاں انہوں نے مطالعہ و تحقیق کے ساتھ لکھنے کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ انہوں نے یہاں دس برس قیام کیا اور اپنی عظیم کتاب ’آثار الباقیہ‘ تحریر کی، جس میں قدیم تہذیبوں کی تقابلی تاریخ لکھی اور اُن میں زوال اور عروج کے معیارات کا تجزیہ کیا۔ البیرونی کے علمی کیریئر کا عروج سلطان محمود غزنوی کے زیر سرپرستی رونما ہوا، جب انہیں افغانستان سمیت ہندوستان میں قیام کا موقع ملا۔ البیرونی دربار میں ماہر علم نجوم کے طور پر ملازم تھے اور شاید اسی لیے محمود غزنوی انہیں اپنی ہر جنگی مہم میں اپنے ساتھ رکھتا تھا۔ ان کی کتاب ’تاریخ الہند‘ ان کا شاہکار مانی جاتی ہے، جو ہندوستان کے سفرنامہ پر مشتمل ہے۔،لیکن یہ محض سفرنامہ نہیں ۔
اس کی طرز انسائیکلوپیڈیا کی ہے، جس میں ہندوؤں کے رسوم و رواج سے متعلق ایسی تفصیلات اور مشاہدات کا ذکر گیا ہے، جن میں سے چند ایک ہندوستان سے متعلق کسی کتاب میں دستیاب نہیں بلکہ کہا جاتا ہے کہ قدیم ہندوستان کی تہذیب و ثقافت اور تاریخ کے بارے میں جو کچھ بھی آج ہمیں معلوم ہے، اس کا بنیادی ذریعہ البیرونی کی یہی کتا ب ہے۔ کتاب الہند کو دنیا بھر میں بشریات جیسے شعبہ علم کی پہلی کتاب مانا جاتا ہے، جس میں انسانی معاشروں کی ساخت و پرداخت کا مربوط اور سائنسی انداز میں تجزیہ کیا گیا۔ اس کتاب کو لکھنے کے لیے البیرونی نے ہندوستان میں اپنے قیام کے دوران سنسکرت زبان سیکھی۔ متعدد تحریروں کا سنسکرت سے عربی اور عربی و فارسی سے سنسکرت میں ترجمہ بھی کیا۔ اس کے علاوہ یونانی، عبرانی اور سریانی زبانوں میں بھی انہوں نے اعلیٰ مہارت حاصل کی۔ 1017ء میں ابن سینا کو برصغیر کے مختلف علاقوں کا تفصیلی دورہ کرنے کا موقع ملا، جس دوران انہوں نے علم ہیئت او رعلم ریاضی سے متعلق ہندو عالموں سے حصول علم کیا۔ ہندی تہذیب و ثقافت پر البیرونی کی کتاب ’کتاب الہند‘ کی بنیاد پر انہیں ’ہندویات‘ کا بانی بھی کہا جاتا ہے۔
البیرونی کی دوسری سب سے اہم کتاب ’قانون مسعودی ‘مانی جاتی ہے، جسے یہ نام محمود غزنوی کے بیٹے مسعود کے نام منسوب ہونے کی وجہ سے ملا ۔ اس کتاب کو علم فلکیات اور ریاضی کی بنیادی حوالہ جاتی کتاب کا درجہ حاصل ہوچکا۔ اس میں مختلف یونانی و دیگر اہم دستاویزات کی مدد سے اجرام فلکی کے بارے میں معلومات کو انسائیکلوپیڈیا کے انداز میں اکٹھا کیا گیا ہے، تاہم یہ محض معلومات کا اکٹھ ہی نہیں بلکہ البیرونی کی علمیت کا اظہار اُن کے تبصروں اوراس کے وضع کردہ نئے نظریوں سے بخوبی کیا جا سکتا ہے۔ ہندی ثقافت اور تاریخ کے ایک ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ البیرونی سے متعدد سائنسی نظریات بھی منسوب کیے جاتے ہیں۔ انہوں نے کوہ ہمالیہ پر قدیم سمندری جانوروں کے فوسلز بھی دیکھے، جس سے انہوں نے یہ نظریہ قائم کیا کہ کبھی پانی کی سطح نہایت بلند تھی اور یہ پہاڑی سلسلہ اس میں ڈوبا ہوا تھا۔
انہوں نے یہ نظریہ پیش کیا کہ پہاڑوں میں اپنی جگہ سے سرکتے رہنے کا رجحان موجود ہوتا ہے۔ البیرونی نے زمین کے نیچے مختلف پرتوں کے سرکنے کا نظریہ قائم کیا جبکہ اس نظریہ کو جدید دور میں ثابت کیا جا سکا۔ ارضیات پر اپنی تحریر میں البیرونی نے زمین کے حرکت کرنے کا نظریہ پیش کیا جبکہ اس دور تک اور اس کے بعد کے دور میں بھی ماہرین نجوم زمین کی گردش کے نظریے کو رد کرتے تھے کیونکہ زمینی گردش کے نظریے کو ماننے کی صورت میں زائچہ بنانے اور ستاروں اور سیاروں کی گردش کا حساب بری طرح متاثر ہوسکتا تھا۔ انہوں نے قیمتی پتھروں اور دھاتوں کا بڑا ذخیرہ اکٹھا کر لیا تھا ،اس کا مقصد ان کی خصوصیات کو سمجھنا، ان کے ارتقا کے بارے میں آگاہی حاصل کرنا اور ان کی جغرافیائی کیفیت کا ادراک کرنا تھا۔ قیمتی پتھروں سے متعلق البیرونی کی فراہم کردہ معلومات آئندہ کئی سو سال تک اس حوالے سے بنیادی حیثیت کی حامل رہیں اور مستقبل کی پیش رفت کے لیے سمت نما ثابت ہوئیں۔
مذاہب عالم کے تقابلی مطالعہ کی روایت میں بھی البیرونی کو بنیاد کاروں کی صف میں شامل کیا جاتا ہے۔ انہوں نے زرتشت مت، جین مت، ہندو مت، عیسائیت، بدھ مت، اسلام اور دیگر مذاہب کا تقابلی مطالعہ کیا اور اس پر مبسوط مقالے تحریر کیے۔ ایک غیر جانبدار محقق کے طور پر انہوں نے مذاہب کے ارتقاء اور فروغ پر غور کیا اور ان کی ہیئت میں اشتراکات تلاش کیے۔ ان کا خیال ہے کہ تمام انسانی ثقافتوں میں موجود انسانی عنصر انہیں ایک دوسرے سے جوڑتا ہے۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ وہ داخلی طورپر ایک سے مقاصد کے لیے کام کرتی ہیں۔ ان کی بنیاد ایک سی ہوتی ہے، چاہے بظاہر وہ مختلف معلوم ہو۔ محمود غزنوی نے 998ء میں غزنہ میں اپنا دارالحکومت قائم کیا ،تو اس نے ابن سینا اور البیرونی کو اپنے دربار میں آنے کی دعوت دی۔ ابن سینا کسی طرح فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے، لیکن البیرونی اس دعوت کو قبول کرتے ہوئے اس کے دربار میں آئے اورپھر مرتے دم تک وہ اس دربار سے خود کو جدا نہ کرپائے۔
گو محمود غزنوی کے ساتھ انہیں جبری رفاقت اختیار کرنا پڑی تھی، لیکن اس کا فائدہ انہیں یہ ہوا کہ انہوں نے ہندوستان کے مختلف علاقوں کے تفصیلی دورے کیے۔ اس دوران اپنے مشاہدات و تجربات کو انہوں نے اپنی معروف کتاب ’کتاب الہند‘ میں درج کیا۔ اس بنیاد پر انہیں ایک سیاح اور مؤرخ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ماہر آثار قدیمہ اور ماہر سماجیات کے طورپر بھی شہرت حاصل ہوئی۔ البیرونی کی ابتدائی تعلیم و تربیت خوارزم شاہ کی سرپرستی میں ہوئی۔ وہیں دربار میں انہیں ابونصر منصور ابن عراق کی معیت حاصل ہوئی۔ وہ اپنے دور کے بڑے جید عالم تھے۔ انہوں نے البیرونی کی تدریس کی، تاہم یہ تعلیمی سلسلہ زیادہ عرصہ جاری نہ رہ سکا کیونکہ 996 عیسوی میں خوارزم شاہ کا تختہ الٹ دیا گیا اور ملک میں خانہ جنگی کی کیفیت پیدا ہوگئی،جس کے باعث البیرونی کو ایران ہجرت کرنا پڑی۔
ساٹھ برس کی عمر میں انہوں نے اپنی تحریروں کا اشاریہ خود ہی تیار کیا، جس سے بعد کے مؤرخوں کے لیے ان کی زندگی، فن اور اس کے دور کے بارے میں درست قیاس کرنے میں سہولت پیدا ہوئی۔ البیرونی سے مجموعی طور پر 146 کتابیں منسوب کی جاتی ہیں۔ ان میں نصف کے قریب کتابیں ریاضیات اور علم فلکیات سے متعلق ہیں۔ صرف بائیس کے قریب کتابیں ہی دست برد زمانہ سے محفوظ رہ پائیں اور ان میں سے بھی نصف کے قریب ہی زیور طباعت سے آراستہ ہوئیں۔
محمدعاصم بٹ
(کتاب ’’دانش ِ مشرق‘‘ سے مقتبس)
کے ایک گاؤں بیرون میں پیدا ہوئے،اسی نسبت سے وہ البیرونی کہلائے۔ بہت چھوٹی عمر میں البیرونی نے عربی اور فارسی زبانوں پر عبور حاصل کرلیا اور اسلامی علوم کے ساتھ ساتھ سماجی و دیگر علوم میں بھی دست گاہ حاصل کی۔ خاص کر ریاضیات اور علم نجوم میں انہوں نے غیر معمولی مہارت حاصل کی اور بہت تھوڑی مدت میں اپنے دور کے ممتاز علما ء میں اپنی جگہ بنالی۔ البیرونی کا دور اسلامی دنیا کے انتشار کا دور تھا۔ انہوں نے چھے مختلف بادشاہوں کے ساتھ ان کے مصاحبین خاص کے طور پر کام کیا۔ قریباً سبھی بادشاہ قتل کردیے گئے، لیکن ہر بادشاہ نے ان کی علمی قدر و منزلت میں کمی نہیں آنے دی۔ انہوں نے اپنی علمی خدمات کی بنیاد پر دنیائے اسلام کے جامع العلوم شخص کا رتبہ حاصل ہوا۔
اس کی طرز انسائیکلوپیڈیا کی ہے، جس میں ہندوؤں کے رسوم و رواج سے متعلق ایسی تفصیلات اور مشاہدات کا ذکر گیا ہے، جن میں سے چند ایک ہندوستان سے متعلق کسی کتاب میں دستیاب نہیں بلکہ کہا جاتا ہے کہ قدیم ہندوستان کی تہذیب و ثقافت اور تاریخ کے بارے میں جو کچھ بھی آج ہمیں معلوم ہے، اس کا بنیادی ذریعہ البیرونی کی یہی کتا ب ہے۔ کتاب الہند کو دنیا بھر میں بشریات جیسے شعبہ علم کی پہلی کتاب مانا جاتا ہے، جس میں انسانی معاشروں کی ساخت و پرداخت کا مربوط اور سائنسی انداز میں تجزیہ کیا گیا۔ اس کتاب کو لکھنے کے لیے البیرونی نے ہندوستان میں اپنے قیام کے دوران سنسکرت زبان سیکھی۔ متعدد تحریروں کا سنسکرت سے عربی اور عربی و فارسی سے سنسکرت میں ترجمہ بھی کیا۔ اس کے علاوہ یونانی، عبرانی اور سریانی زبانوں میں بھی انہوں نے اعلیٰ مہارت حاصل کی۔ 1017ء میں ابن سینا کو برصغیر کے مختلف علاقوں کا تفصیلی دورہ کرنے کا موقع ملا، جس دوران انہوں نے علم ہیئت او رعلم ریاضی سے متعلق ہندو عالموں سے حصول علم کیا۔ ہندی تہذیب و ثقافت پر البیرونی کی کتاب ’کتاب الہند‘ کی بنیاد پر انہیں ’ہندویات‘ کا بانی بھی کہا جاتا ہے۔
محمدعاصم بٹ
(کتاب ’’دانش ِ مشرق‘‘ سے مقتبس)
0 Comments