Science

6/recent/ticker-posts

عباس ابن فرناس : انسانی تاریخ کے پہلے اڑنے والے انسان

عباس قاسم ابن فرناس ایک موجد مہندس حکیم، شاعر، موسیقار، طبعیات ماہر فلکیات اور کیمیا دان تھے۔ وہ اندلس (مسلم اسپین) کے شہر اذن۔ رند۔ اوندا (Izf-Rand Onda) میں 810ء میں پیدا ہوئے ۔ بعدازاں قرطبہ میں رہائش اختیار کی۔ انہوں نے اپنی تمام عمر قرطبہ میں بسر کی اور اپنے علم و حکمت کی بنا پر عظیم سائنسدان کہلائے۔ ان کی ایجادات اور اختراعات متعدد ہیں۔ انہیں اپنے زمانے کا نابغہ روزگار کہنا بے جا نہ ہو گا۔ وہ علم ریاضی، شاعری، طبعیات اور پیچیدہ گتھیوں کو سلجھانے میں یکتا تھے۔ انہوں نے پانی کی گھڑی اور کرسٹل بنانے کا فارمولا بنایا۔ اور تو اور، انہوں نے اپنی تجربہ گاہ میں شیشے اور مشینوں کی مدد سے ایک ایسا پلانیٹیریم بنایا جس میں بیٹھ کر لوگ ستاروں اور بادلوں کی حرکت اور ان کی گرج چمک کا مشاہدہ کر سکتے تھے۔ 

انہوں نے اپنے پلانیٹیریم کو امیر اندلس کی فرمائش پرمتحرک بنایا۔ ریت سے بلور اور کئی قسم کی گھڑیاں بنانے کا کام جاری رکھا۔ ان کی ریاضی میں مہارت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک دفعہ کوئی تاجر مشہور مسلمان عالم خلیل بن احمد کی کتاب اپنے ساتھ لایا۔ جو آٹھویں صدی میں بغداد کے عالم، شاعر اور ماہر لسانیات تھے۔ ان کا ایک کارنامہ عربی کی پہلی لغت تیار کرنا ہے۔ شاعری میں علم عروض اورحسابی تقطیع کی بنیاد انہوں نے ہی ڈالی تھی۔ یہ کتاب سپین میں بالکل نئی آئی تھی ۔ کوئی اس کے مندرجات سے واقف تھا نہ اس کی تشریح کر سکتا تھا۔ چنانچہ یہ کتاب ابن فرناس کے سپرد کی گئی۔ وہ اسے لے کر ایک گوشے میں چند ساعتوں کے لئے بیٹھ گئے ۔ انہوں نے کتاب کی ریاضیاتی ترکیب اور مطلب سے بڑی وضاحت کے ساتھ اپنے حاضرین کو بیان کیا جسے سن کر وہ ان کی مہارت اور یادداشت پر ششدر رہ گئے۔ 

کارہائے نمایاں : 822 میں جب خلیفہ عبدالرحمان دوئم تخت نشین ہوئے تو انہوں نے دنیا سے تمام با صلاحیت افراد کو اکٹھا کرنا شروع کیا۔ ان میں سے ایک ابن عباس تھے۔ خلیفہ عبدالرحمان دوئم کے زیر سرپرستی 852ء میں ایک بہادر شخص جس کا نام ارمن فرمن تھا۔ اس نے پروں کی طرح کی ایک بڑی سی چادر کے ذریعے قرطبہ کی ایک اونچی عمارت سے اڑنے کی کوشش کا مظاہرہ کیا۔ اس کے لیے لوگوں سے شرط بھی لگائی، مگر وہ فوراً ہی نیچے گر گیا۔ اسے معمولی سی چوٹیں آئیں۔ ارمن کسی حد تک اپنی شرط جیت گیا تھا۔ 

اسے دنیا کا سب سے پہلا پیرا شوٹر بھی کہا جاتا ہے۔ عباس ابن فرناس بھی یہ منظر دیکھنے والوں میں شامل تھے۔ انہوں نے بھی اڑان پر تجربات کرنا شروع کر دیے۔ 30 سال بعد ان کا تجربہ کسی حد تک کامیاب رہا۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ پہلی انسانی پرواز ہے۔ وہ گھنٹوں پرندوں کو محو پرواز دیکھ کر ان کی طرح اڑنے کے خواہش مند تھے۔ انہوں نے کئی برس پرندوں کی پرواز کی تکنیک یعنی ایروڈائنا میکس کا بغور مطالعہ کیا ۔ پھر ایک دن یہ اعلان کیا کہ انسان بھی پرندوں کی طرح اڑ سکتا ہے۔ جب ناقدین نے مذاق اڑایا تو انہوں نے اپنی تھیوری کا عملی مظاہرہ کرنے کا اعلان کر دیا۔ انہوں نے پرندوں جیسے دو پر اپنے وزن کے مطابق تیار کئے ۔ ان کے فریم ریشم کے کپڑے سے منڈھ دیے۔

پھر قرطبہ سے دو میل دور شمال مغرب میں واقع امیر عبدالرحمن الداخل کے بنائے ہوئے محل رصافہ کے ساتھ چٹان پر چڑھ گئے۔ کئی سو تماش بینوں کی موجودگی میں انہوں نے وہاں کھڑے ہو کر دونوں پر اپنے جسم کے ساتھ باندھ لئے۔ تماشائی حیرت اور تعجب سے یہ ساری کارروائی دیکھ رہے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اس سائنس دان کی ہڈیاں تک سلامت نہیں بچیں گی۔ ابن فرناس نے تماشائیوں کی جانب دیکھا اور پھر پہاڑی سے چھلانگ لگا دی۔ وہ اپنے پروں کی مدد سے ہوا میں کچھ دیر تیرتے رہے، اور پہاڑ سے کچھ فاصلے پر واقع ایک میدان میں اتر گئے۔ اس وقت ان کی عمر 65 یا 70 برس تھی۔ یہ واقعہ نویں صدی کے دوسرے ربع میں پیش آیا ۔ ان کی کمر دباؤ کی وجہ سے تھوڑی متاثر ہوئی۔

وہ انسانی تاریخ کے پہلے اڑنے والے انسان کہلائے۔ مگر یہ معذوری ان کی عمر کے باقی بارہ سال تک ان کے ساتھ رہی۔ وہ اکثر غور کرتے کہ آخر پرواز کرنے والے سوٹ میں کیا خرابی تھی جس کی وجہ سے چوٹ لگی۔ ان کی سمجھ میں یہی آیا کہ پرندے پرواز اور لینڈنگ کے دوران اپنی دم کا استعمال بھی کرتے ہیں۔ انہوں نے پر تو بنا لئے تھے مگر دم کی اہمیت کو اچھی طرح سمجھ نہ سکے۔ انہیں اپنی اس غلطی کا احساس آخری سانس تک رہا۔

وقاص چودھری


 

Post a Comment

0 Comments