مسلمانوں میں الکندی کو پہلا باقاعدہ فلسفی ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ انہیں یہ
اعزاز بھی حاصل ہے کہ انہوں نے مسلم دنیا کو ارسطو کے خیالات سے روشناس کرایا۔ وہ نوافلاطونی مکتبہ فکر سے متاثر تھے۔ توحید کے موضوع پر ان کے خیالات معتزلہ کے افکار سے متاثر تھے۔ گو کئی دوسرے امور پر وہ معتزلہ سے اختلاف بھی کرتے ہیں۔ وہ فلسفہ کو سچ کی تلاش کا اور مابعد الطبیعات کو خدا کا علم قرار دیتے اور اسے فلسفہ اول کہتے ہیں۔ اس لیے الکندی کی فکر میں فلسفہ اور الہیات میں کوئی تمیز باقی نہیں رہتی کیونکہ ان کے مطابق دونوں شعبہ ہائے علم کا موضوع ایک ہی ہے۔ اس نقطہ نظر سے بعد میں آنے والے مسلم فلاسفہ جیسے الفارابی اور ابن سینا نے اختلاف کیا،لیکن اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ انہوں نے مسلم دنیا میں فکر و فلسفہ کے رویے کی داغ بیل ڈالی اور ایسی بنیادیں استوار کیں، جن پر مسلم فلسفہ کی عظیم عمارت استوار ہوئی۔
الکندی فلسفیانہ الہیات کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ ایک حصے کا تعلق ان شواہد سے ہے، جو کسی ایک سچ سے متعلق ہیں۔ ایسا سچ جو کثرت میں وحدت کی وجہ بنتا ہے۔ دوسرے حصے کا تعلق سچ کی ہیئت سے ہے۔ یہ وجہ ناگزیر طورپر واحد ہوگی۔ ہم جوں جوں اشیا اور وجوہات کی بنیاد کی طرف سفر کرتے ہیں، کثرت میں وحدت ظاہر ہونا شروع ہوتی ہے اور یوں یہ سفر ایک وجہ پر آکر ختم ہوگا، یہی الہیات ہے۔ وہ الہیات کو کثرت اور وحدت دونوں صورتوں میں دیکھتے ہیں، جیسے ایک جسم جو بیک وقت واحد اکائی بھی ہے اور بہت سے اعضا کا مجموعہ بھی۔ کائنات ازلی نہیں بلکہ خدا نے عقل اول پیدا کی، جس کے نتیجے میں کائنات کا وجود ممکن ہوا۔ الکندی کا کمال یہ ہے کہ ا نہوں نے الہیات اور فلسفہ کی یگانگت پر اصرار کیا اور الہیاتی مسائل کو فلسفیانہ طرز فکر سے حل کرنے کی کوشش کی۔
اسلامی دنیا میں یہ اپنی نوعیت کی اوّلین کوشش تھی ،جس نے آنے والے زمانے میں مسلم فکر پر نہایت گہرے اثرات مرتب کیے۔ الکندی فلسفہ اور نزول کا مقصد ایک ہی قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ فلسفہ کی باقاعدہ تربیت حاصل کی جاتی ہے اور اس کے بعد ہی کوئی طالب علم خود کو فلسفی کے درجہ پر فائز کرسکتا ہے۔ اس کے مقابلے میں وحی کسی بھی ایسے شخص کو ہوسکتی ہے، جسے خدا خود منتخب کرے۔ فلسفی سچ تک پہنچنے کے لیے منطق اور ایسے ہی کئی دوسرے ذرائع استعمال کرتا ہے، جب کہ وحی کے ذریعے یہ سچ خدا کی طرف سے کسی کو ودیعت کردیا جاتا ہے۔ اسی طرح ایک فلسفی کی نسبت ایک پیغمبر کا فہم کہیں زیادہ معتبر اور واضح ہوتا ہے۔ فلسفی کی نسبت پیغمبر کے پاس اپنے سچ کو بیان کرنے کے کہیں زیادہ قابل فہم اور آسان پیرایے ہوتے ہیں۔ یوں پیغمبر کا رتبہ ایک فلسفی کی نسبت کہیں افضل ہے،نیز عوام کے لیے ایک فلسفی کی نسبت ایک پیغمبر کے پیغام کو سمجھنا بھی نسبتاً آسان ہوتا ہے۔ فلسفہ کے علاوہ الکندی نے حساب، طب، فلکیات اور موسیقی میں بھی مہارت حاصل کی۔
موسیقی کے موضوع پر انھوں نے پندرہ مقالے تحریر کیے، جن میں سے صرف پانچ مقالے ہی دست برد زمانہ سے بچ پائے ہیں۔ اسلامی دنیا میں الکندی پہلے بڑے موسیقار مانے جاتے ہیں، جنہوں نے اس فن پر نظری حوالے سے گراں قدر کام کیا۔ انہوں نے ’عود‘ میں پانچویں تار کا اضافہ کیا۔ الکندی نے نہ صرف اس فن پر لکھا بلکہ موسیقی کے کائناتی نظام میں غیر معمولی مقام پر بھی نظریات پیش کیے۔ عرب میں فلسفہ کو ترویج دینے والی شخصیت الکندی 801 میں عراق کے شہر کوفہ میں ایک صاحب ثروت خاندان میں پیدا ہوئے۔ انہیں ’عربوں کا فلسفی‘ اور ’عربی فلسفہ کا باپ‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ الکندی مسلمانوں میں ارسطو کی تتبع میں جاری ہونے والی فلسفیانہ روایت کے بانیان میں شامل ہوتے ہیں۔ انہوں نے دنیائے اسلام میں یونانی فلسفے کے لیے فضا تیار کی اور اس کے فروغ کے لیے کوشش کی۔ نہ صرف یہ بلکہ یونانی فلسفیانہ مزاج سے اسلامی مزاج کو ہم آہنگ کرنے کے لیے انہوں نے علمی سطح پر کاوشیں کیں اور فلسفہ اور مختلف اسلامی علوم جیسے الہیات کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کی۔
ابتدائی تعلیم الکندی نے بصرہ میں حاصل کی۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے وہ بغداد منتقل ہوگئے ،جو عباسی خلفا کے دور میں دنیا بھر میں علم کا گہوارہ ماناجاتا تھا۔ بغداد کی علمی و فکری فضا نے الکندی کی فکروجودت کو جلا بخشی۔ انہوں نے یہاں خوب لکھا۔ جلد ہی اس شہر میں الکندی کی علمی فضیلت کی دھوم مچ گئی۔ عباسی خلفا المامون اور المعتصم نے الکندی کو ’بیت الحکمہ‘ میں یونانی فلسفہ و ادب کے عربی زبان میں ترجمہ کے عمل کی نگرانی کے لیے متعین کیا۔ الکندی 873 عیسوی میں عراق کے شہر بغداد میں فوت ہوئے اور وہیں آپ کا مقبرہ بھی موجود ہے۔
محمدعاصم بٹ
(کتاب ’’دانش ِ مشرق‘‘ سے مقتبس)
اعزاز بھی حاصل ہے کہ انہوں نے مسلم دنیا کو ارسطو کے خیالات سے روشناس کرایا۔ وہ نوافلاطونی مکتبہ فکر سے متاثر تھے۔ توحید کے موضوع پر ان کے خیالات معتزلہ کے افکار سے متاثر تھے۔ گو کئی دوسرے امور پر وہ معتزلہ سے اختلاف بھی کرتے ہیں۔ وہ فلسفہ کو سچ کی تلاش کا اور مابعد الطبیعات کو خدا کا علم قرار دیتے اور اسے فلسفہ اول کہتے ہیں۔ اس لیے الکندی کی فکر میں فلسفہ اور الہیات میں کوئی تمیز باقی نہیں رہتی کیونکہ ان کے مطابق دونوں شعبہ ہائے علم کا موضوع ایک ہی ہے۔ اس نقطہ نظر سے بعد میں آنے والے مسلم فلاسفہ جیسے الفارابی اور ابن سینا نے اختلاف کیا،لیکن اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ انہوں نے مسلم دنیا میں فکر و فلسفہ کے رویے کی داغ بیل ڈالی اور ایسی بنیادیں استوار کیں، جن پر مسلم فلسفہ کی عظیم عمارت استوار ہوئی۔
محمدعاصم بٹ
(کتاب ’’دانش ِ مشرق‘‘ سے مقتبس)
0 Comments