Science

6/recent/ticker-posts

سوشل میڈیا بلیک آؤٹ سے بچانے والا وی پی این کیا ہے؟

جس طرح لوک کہانیوں میں ایک سلیمانی ٹوپی کا ذکر ملتا ہے جسے پہن کر آپ دوسروں کی نظر سے غائب ہو جاتے ہیں، اسی طرح وی پی این یا ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورک ایک طرح کی سلیمانی ٹوپی ہے جو انٹرنیٹ صارفین کی لوکیشن کو چھپا دیتی ہے اور حکام کو پتہ نہیں چلتا کہ وہ کس جگہ سے انٹرنیٹ استعمال کر رہے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ صارفین وی پی این کی مدد سے ایک ملک میں بیٹھ کر اپنے آپ کو کسی اور ملک میں موجود ظاہر کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر آپ پاکستان میں ہیں، لیکن وی پی این کی مدد سے خود کو برطانیہ، بیلجیئم یا کینیڈا، غرض کسی بھی ملک میں ظاہر کر سکتے ہیں۔ ایسا ہونے سے وہ اپنے ملک میں موجود کسی بھی قسم کی پابندی کو بائی پاس کر سکتے ہیں۔

مثال کے طور پر پاکستان میں اس وقت ٹوئٹر اور فیس بک پر سرکاری سطح پر پابندی عائد ہے لیکن جب کوئی صارف وی پی این کے ذریعے ان سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو استعمال کرے تو وہ اس پابندی کو بائی پاس کر سکتا ہے۔ پاکستان میں وی پی این کے استعمال کے لیے پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی سے سروس کو رجسٹر کروانا ضروری ہے اور غیر رجسٹرڈ وی پی این کو استعمال کرنا خلاف قانون ہے۔ عالمی سطح پر کئی کمپنیاں وی پی این سہولت مہیا کرتی ہیں جو صارفین مفت یا فیس ادا کر کے استعمال کر سکتے ہیں۔ ایسے ہی ایک صارف قمر شہباز نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ تقریباً چھ سال سے وی پی این سروس استعمال کر رہے ہیں۔ قمر کا کہنا تھا کہ ’میں کچھ امریکی برانڈز کے لیے ایمازون پر ورچوئل اسسٹنٹ ہوں۔ مجھے اپنے کام کے لیے ایسے سوفٹ ویئر استعمال کرنا پڑتے ہیں جو صرف امریکہ کے اندر رہتے ہوئے استعمال ہو سکتی ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’وی پی این کے ذریعے میرے کمپیوٹر کی لوکیشن وقتی طور پر امریکہ کی ظاہر ہو جاتی ہے جس سے میں ان سافٹ ویئرز پر کام کر سکتا ہوں۔‘ قمر نے یہ بھی بتایا کہ وہ جو وی پی این استعمال کرتے ہیں اس کی فیس ادا کرتے ہیں لیکن بہت سے ایسے وی پی اینز بھی موجود ہیں جو مفت میں استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ تاہم ’مفت سروس میں محدود گھنٹوں کے لیے ہی وی پی این استعمال کی جا سکتی ہے۔‘ وی پی این کا ایک اور استعمال یوں کیا جاتا ہے کہ مثال کے طور پر نیٹ فلکس کے کچھ پروگرام امریکہ میں دیکھے جا سکتے ہیں مگر پاکستان میں نہیں۔ لوگ وی پی این کی مدد سے اپنے آپ کو امریکہ میں ظاہر کر کے یہ پروگرام دیکھ سکتے ہیں۔

محمد حسان گُل 

بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو

Post a Comment

0 Comments