Science

6/recent/ticker-posts

مصنوعی ذہانت کے ’گاڈ فادر‘ کی وارننگ : یہ ٹیکنالوجی ’خوفناک‘ ہے

’مصنوعی ذہانت کے موجد‘ کے نام سے مشہور جیفری ہنٹن نے اس ٹیکنالوجی سے لاحق خطرات کے بارے میں ایک خوفناک وارننگ دیتے ہوئے گوگل کو خیرباد کہہ دیا ہے۔ جیفری ہنٹن نے ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک گوگل میں کام کیا اور ایسی ٹیکنالوجی تیار کی جس نے چیٹ جی پی ٹی جیسے موجودہ مصنوعی ذہانت کے نظام کے لیے راہ ہموار کی۔ لیکن انہوں نے مصنوعی ذہانت کے خطرات کے متعلق آگاہی پھیلانے کے لیے کمپنی چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے اخبار نیو یارک ٹائمز کو بتایا کہ انہیں اس شعبے میں اپنے کام پر افسوس ہے۔ ان کا کہنا تھا، ’میں اپنے آپ کو تسلی دیتا ہوں: اگر میں ایسا نہ کرتا تو کوئی اور کرتا۔‘ انہوں نے کہا، انہیں خدشہ ہے مستقبل قریب میں اس ٹیکنالوجی کا مطلب یہ ہو گا کہ جعلی تصاویر، ویڈیوز اور متن کے پھیلاؤ کی وجہ سے لوگ ’یہ نہیں جان سکیں گے کہ سچ کیا ہے۔‘ لیکن مستقبل میں مصنوعی ذہانت کے سسٹم بالآخرغیر متوقع، خطرناک رویہ سیکھ سکتے ہیں اور یہ کہ اس طرح کے نظام بالآخر قاتل روبوٹس کو تقویت دیں گے۔ انہوں نے یہ بھی متنبہ کیا کہ یہ ٹیکنالوجی لیبر مارکیٹ میں نقصان دہ انتشار کا سبب بن سکتی ہے۔

ان کا کہنا تھا، ’کچھ لوگوں کو یقین ہے کہ یہ چیزیں درحقیقت لوگوں سے زیادہ ذہین بن سکتی ہیں۔ لیکن زیادہ تر لوگوں کا خیال ہے کہ اس میں ابھی بہت وقت لگے گا۔ اور میرا بھی خیال تھا کہ اس میں ابھی بہت وقت لگے گا۔ مجھے لگتا تھا کہ یہ 30 سے 50 سال یا اس سے بھی زیادہ وقت لگے گا۔ اب میں ایسا نہیں سوچتا۔‘  انہوں نے متنبہ کیا کہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے قواعد و ضوابط کی ضرورت ہے کہ گوگل اور مائیکروسافٹ جیسی کمپنیاں خطرناک دوڑ میں نہ لگ جائیں۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ ہو سکتا ہے یہ کمپنیاں پہلے ہی خطرناک سسٹم پر خفیہ طور پر کام کر رہی ہوں۔‘ ان کا کہنا تھا، ’مجھے نہیں لگتا کہ انہیں اس کو مزید بڑھانا چاہیے جب تک کہ وہ یہ نہ سمجھ لیں کہ آیا وہ اسے کنٹرول بھی کر سکتے ہیں یا نہیں۔‘ ڈاکٹر جیفری ہنٹن مصنوعی ذہانت کے متعلق خطرے کی گھنٹی بجانے والے پہلے شخص نہیں ہیں۔ حالیہ مہینوں میں دو بڑے واضح خطوں میں ’معاشرے اور انسانیت کے لیے سنگین خطرات‘ کے متعلق متنبہ کیا گیا تھا، جن پر بہت سے ایسے لوگوں کے دستخط تھے جنہوں نے اسے بنانے میں مدد کی۔

بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح ڈاکٹر جیفری ہنٹن نے کہا کہ وہ گذشتہ سال کے دوران اوپن اے آئی کی ’چیٹ جی پی ٹی‘ اور گوگل کی ’بارڈ‘ جیسی ٹیکنالوجیوں کی ترقی سے ٹیکنالوجی کے خطرات کے بارے میں زیادہ فکرمند ہو گئے ہیں۔ ان کا نظریہ اس وقت بدل گیا جب انہیں یقین ہو گیا کہ سسٹم ایسے طریقوں سے برتاؤ کرنے لگے ہیں جو انسانی دماغ میں ممکن نہیں ہیں۔ انھوں نے نیویارک ٹائمز کو بتایا، ’ہو سکتا ہے کہ ان سسٹمز میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ دراصل اس سے بہتر ہو جو دماغ میں ہو رہا ہے۔‘ انہوں نے خوف کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ کمپنیاں اپنے مصنوعی ذہانت کے نظام کو مزید بہتر اور تربیت دیتی ہیں لہٰذا امکان ہے کہ آنے والے برسوں میں یہ مزید درست ثابت ہو گا۔ وہ جیسے جیسے اسے(بہتر) کریں گے، سسٹم زیادہ خطرناک ہو جائیں گے۔ انہوں نے ٹیکنالوجی کے بارے میں کہا، ’دیکھیں کہ یہ پانچ سال پہلے کیسی تھی اور اب کیسی ہے۔ فرق کو سمجھیں اور اسے آگے بتائیں۔ یہ خوفناک ہے۔‘

اینڈریو گرفن، گریم میسی 

بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو

Post a Comment

0 Comments