اٹلی کے جنوب میں بحیرۂ روم کا سب سے بڑا جزیرہ سسلی واقع ہے۔ اس کے مشرقی ساحل پر ایک چھوٹی سی بندرگاہ سیراکوس (Syracuse) ہے جو سسلی کا تقریباً اڑھائی ہزار سال پرانا شہر ہے۔ اس شہر میں یونانی دور کا غالباً سب سے بڑا سائنس دان ارشمیدس پیدا ہوا۔ یونانی علم و فضل کے اس قدیم زمانے میں ارشمیدس سے پہلے متعدد ایسے دانش ور گزرے ہیں جنہیں سائنس دانوں کی صف میں جگہ ملی ہے مگر وہ سب فلسفی زیادہ اور سائنس دان کم تھے، کیونکہ ان کی دماغی کاوشیں زیادہ تر فلسفہ اور حکمت پر مرکوز تھیں۔ سائنس میں ان کی تحقیقات کا حصہ بہت قلیل تھا اور جو کچھ تھا وہ محض نظریاتی تھا جس میں تجربات اور ایجادات کو کچھ دخل نہ تھا، لیکن ارشمیدس اس لحاظ سے ان سب میں منفرد ہے کہ اس نے تمام عمر اپنی تحقیقات کا دائرہ محصور رکھا۔
پھر اس کی تحقیقات صرف نظریاتی نہ تھیں، بلکہ اس نے اپنے کلیات کو باقاعدہ تجربات سے ثابت کیا تھا۔ علاوہ ازیں اس نے سائنس کے اخذ کردہ اصولوں کو عملی جامہ پہنا کر متعدد کارآمد ایجادیں بھی کیں اور انہیں عملی زندگی میں کامیابی سے استعمال کیا۔ چونکہ نظریاتی سائنس، تجرباتی سائنس اور ایجادات، یہ سائنس کی تین بڑی شاخیں ہیں اور ارشمیدس پہلا شخص ہے جس کے کارنامے سائنس کی ان تینوں شاخوں میں پھیلے ہوئے ہیں، اس لحاظ سے یہ دعویٰ صحیح ہے معلوم ہوتا ہے کہ ارشمیدس دنیا کا پہلا مکمل سائنس دان ہے۔ ارشمیدس کی پیدائش سے پہلے یونان کی قدیم سلطنت میں زوال آ چکا تھا اور اس کے مقابلے میں دو اور طاقتیں ابھر چکی تھیں۔ ان میں سے ایک اٹلی میں رومیوں کی تھی اور دوسری افریقہ کے ساحل پر کارتھیا والوں کی تھی۔
بحیرۂ روم کے چھوٹے چھوٹے ملکوں اور جزیروں پر بالادستی حاصل کرنے کے لیے اہل روما اور اہل کارتھیا ایک دوسرے کے مدمقابل تھے اور ان کے درمیان اکثر لڑائیاں ہوتی رہتی تھیں۔ جن میں کبھی ایک فریق کا اور کبھی دوسرے فریق کا پلہ بھاری رہتا تھا۔ چنانچہ سسلی کے جزیرے پر اقتدار قائم کرنے کے لیے روما اور کارتھیا میں قریباً ایک صدی تک مسلسل جنگیں ہوتی رہیں۔ یہی وہ پُرآشوب زمانہ ہے جس میں ارشمیدس کی ساری زندگی بسر ہوئی۔ اس کی پیدائش کے چند سال بعد سسلی کے جزیرے کے ایک بڑے حصے پر اہل کارتھیا نے قبضہ کر لیا تھا اور سیراکوس والوں نے یونان کی ایک ریاست کے حکمران سے جس کا نام ایپی رس تھا مدد مانگی۔ شاہ ایپی رس اپنی فوج کے ہمراہ ان کی کمک کو آیا مگر ان کی باہمی سازشوں سے بددل ہو کر دو سال کے بعد وہاں سے ہمیشہ کے لیے چلا گیا اور اہل سیراکوس کو اپنے معاملات آپ نمٹانے کے لیے اکیلا چھوڑ گیا۔
اس کے جانے کے بعد روما والوں نے سیراکوس پر حرص و آز کی نظر مرکوز کر دی اور پھر اس شہری ریاست کو اپنے اپنے حلقہ اقتدار میں لانے کے لیے اہل روما اور اہل کارتھیا کے درمیان طویل آویزش شروع ہو گئی جس کا خاتمہ رومیوں کی فتح پر ہوا۔ ارشمیدس کا باپ ایک متمول شخص تھا جس نے اپنے ہونہار بیٹے کو تعلیم دلانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔ اس عہد میں علم و فن کے مرکز کی حیثیت سے ایتھنز کی عظمت ختم ہو چکی تھی اور اس کی جگہ مصر کے ساحل پر سکندریہ نے لے لی تھی۔ اس لیے جو طلبہ اعلیٰ تعلیم کے خواہش مند ہوتے تھے وہ سکندریہ کا رخ کرتے تھے، ارشمیدس کو لڑکپن میں اس کے باپ نے سکندریہ میں بھیجا جہاں وہ عنفوان شباب تک حصول تعلیم کی جدوجہد میں مصروف رہا۔
سکندریہ کے قیام کے دوران میں ارشمیدس نے اپنی اختراعی قوتوں سے کام لینا شروع کر دیا تھا۔ چنانچہ پانی اٹھانے کا ایک آلہ، جسے اس نے مصریوں کی فرمائش پر ایجاد کیا تھا اس دور کی یادگار ہے۔ یہ آلہ جو ’’ارشمیدس کا پیچ‘‘ کہلاتا ہے، ایک بل کھائی ہوئی کھوکھلی نالی پر مشتمل ہوتا ہے جس کے نیچے کے سرے کو پانی میں ڈبو کر اور نلی کو ذرا ترچھا تھام کر اس کے لیور کے گرد گھمایا جاتا ہے جس پر پانی اس میں اوپر چڑھتا جاتا ہے۔ اس آلے کو دریا یا تالاب میں سے پانی اوپر اٹھانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ جب ارشمیدس سکندریہ سے فارغ التحصیل ہو کر اپنے وطن سیراکوس واپس آیا تو اس شہری ریاست پر ایک بادشاہ ’’ہیرو‘‘ نامی حکمران تھا۔ اس بادشاہ کے ساتھ ارشمیدس کے تعلقات تھوڑے ہی عرصے میں بہت گہرے ہو گئے اور وہ اس کا درباری اور مشیر بن گیا۔ ایک روایت کے مطابق ارشمیدس کی اس شاہی خاندان سے کچھ قرابت بھی تھی۔
ارشمیدس اپنے عہد کا شاید واحد شخص تھا جو لیور اور چرخیوں کے اصول کو جانتا تھا اور ان کے عملی استعمال میں ماہر تھا۔ لیور کے اصول کے مطابق ایک متوازن لیور میں وزن اور وزن کے بازو کا حاصل ضرب، قوت اور قوت کے بازو کے حاصل ضرب کے برابر ہوتا ہے، اس سے ظاہر ہے کہ اگر ہم ایک طرف قوت کے بازو کو زیادہ سے زیادہ بڑھا دیں اور دوسری طرف وزن کے بازو کو کم سے کم کر دیں تو ہم معمولی قوت سے اتنے بڑے وزن کو اٹھا سکتے ہیں کہ جس کی کوئی حد نہیں ہو سکتی۔ اس نکتے کو ایک لطیف اور دل چسپ پیرائے میں ارشمیدس یوں بیان کیا کرتا تھا: ’’مجھے ایک مناسب لیور اور زمین سے باہر کھڑا ہونے کے لیے جگہ دے دو تو میں اس لیور کی مدد سے پوری زمین کو ہلا دوں گا۔‘‘ چرخیوں کے عملی استعمال سے بہت بڑے بوجھ کو معمولی قوت سے اٹھانے کی اختراع ارشمیدس کی ایجاد ہے۔
ارشمیدس طبعاً خاموش اور سنجیدہ مزاج انسان تھا لیکن ایک روز اہل شہر نے دیکھا کہ بازار کے ایک حمام میں سے نکل کر وہ دیوانہ وار باہر نکل کر بھاگا جا رہا ہے اور اس کی زبان پر ایک ہی کلمہ ہے: ’’پا لیا، پا لیا‘‘۔ اس پر اس اصول کا راز منکشف ہو گیا تھا جو ’’اصولِ ارشمیدس‘‘ کے نام سے موسوم ہو کر اسے زندۂ جاوید بنا گیا جو حسبِ ذیل ہے:’’جب کسی ٹھوس شے کو کسی مائع کے اندر پورے طور پر ڈبو دیا جائے تو اس ٹھوس شے کے وزن میں کمی آ جاتی ہے اور یہ کمی اس شے کے مساوی الحجم مائع کے وزن کے برابر ہوتی ہے۔‘‘ ارشمیدس کے بڑھاپے کے ایام تھے جب اس باتدبیر بادشاہ نے جو ارشمیدس کا دوست اور مربی بھی تھا، وفات پائی اور اس کی بجائے ایک جوشیلا نوجوان ہیرو نامس تخت سلطنت پر بیٹھا۔ اس نے حکومت کی عنان ہاتھ میں لیتے ہی کارتھیا والوں سے سیاسی گٹھ جوڑ کر لیا۔ اس پر اہلِ روما ایک بڑی فوج لے کر، جس کی کمان مشہور رومن جرنیل مارسیلس کے ہاتھ میں تھی، سیراکوس پر چڑھ آئے۔
ارشمیدس کو اپنے نوجوان بادشاہ کا یہ سیاسی فیصلہ پسند نہیں تھا، مگر چونکہ اب یہ فیصلہ ہو چکا تھا، اس لیے اس کی حب الوطنی کا تقاضا تھا کہ وہ رومن حملہ آوروں کے خلاف اپنے ہم وطنوں کی مدد کرے۔ اس موقع پر ارشمیدس نے اپنا سائنس کا سارا علم جنگ کے لیے وقف کر دیا۔ تاہم سیراکوس کی ناکہ بندی کرنے کی جو تجویز رومی کمان دار مارسیلس نے سوچی تھی، وہ جنگی نقطہ نظر سے بہت کامیاب رہی۔ کیونکہ شہر کے گرد رومنوں کا محاصرہ مکمل ہو جانے سے اہل شہر کے لیے باہر سے کھانے پینے کی چیزوں کی آمد بند ہو گئی اور تھوڑے ہی عرصے کے بعد وہ بھوکوں مرنے لگے۔ آخر کار بھوک سے تنگ آ کر اہل شہر نے ہار مان لی اور رومن سپاہی شہر میں داخل ہو کر قتل و غارت میں مصروف ہو گئے۔
رومن کمان دار ایک بہادر دشمن کی طرح بوڑھے ارشمیدس کے کمال کا دل سے معترف تھا، اس لیے اس نے اپنے سپاہیوں کو حکم دے رکھا تھا کہ اسے کوئی گزند نہ پہنچائی جائے لیکن عام سپاہیوں سے، جو فتح کے نشے میں سرشار تھے، اس حکم کی تعمیل کی امید بہت کم تھی۔ چنانچہ غارت گری کے دوران میں ایک سپاہی ارشمیدس کے مکان میں داخل ہو گیا۔ ارشمیدس اس وقت زمین پر شکلیں بنا کر جیومیٹری کے کسی ادق مسئلے میں ایسا غرق تھا کہ اسے اپنے گردو پیش کی کچھ خبر نہ تھی۔ اس نے غصے سے بھری ہوئی آواز سے آنے والے کو روکا کہ وہ زمین پر بنی ہوئی شکلوں کو اپنے نقش پا سے نہ مٹائے۔ فتح مند سپاہی اس ہتک کی کب تاب لا سکتا تھا۔ اس نے آگے بڑھ کر ارشمیدس کے سینے میں اپنا نیزہ پیوست کر دیا جس سے بوڑھے سائنس دان کی روح قفس عصری سے پرواز کر گئی۔
0 Comments