Science

6/recent/ticker-posts

ثالیس : دورِ قدیم کا عظیم سائنس دان

سب سے قدیم سائنس دان جس کا تذکرہ تاریخ نے خاصا محفوظ رکھا ہے، ثالیس ہے۔ یقینا اس سے پہلے بھی بہت سے اشخاص ایسے گزرے ہوں گے جن پر سائنس دان کی تعریف صادق آتی ہو گی، مگر تاریخ کے اس دھندلے دور میں ان کا قابلِ ذکر نقش باقی نہیں رہا۔ ثالیس اس لحاظ سے خوش نصیب تھا کہ اس کی زندگی کے ایسے آثار اور کارنامے باقی رہ گئے ہیں جن سے اس کو شہرتِ دوام حاصل ہو گئی۔ وہ 624 قبل مسیح کے لگ بھگ پیدا ہوا اور اس نے طویل عمر پائی۔ مشہور یونانی مؤرخ ہروڈوٹس، جو دنیا کا انتہائی قدیم تاریخ دان ہے، ثالیس سے تقریباً دو صدی بعد گزرا ہے۔ اس مؤرخ نے اپنی شہرۂ آفاق تاریخ نو جلدوں میں لکھی ہے جس میں اس نے یونان، مصر اور ایران کے قدیم مشاہیر کے حالات قلم بند کیے ہیں۔ ان میں ثالیس کا بھی ذکر آتا ہے۔ 

ہیروڈوٹس کے مطابق ثالیس فونیشیا کا رہنے والا ایک فنیقی تھا۔ فونیشیا قدیم زمانے میں موجودہ شام اور لبنان کے اس حصے کو کہتے تھے جو بحیرۂ روم کے ایشیائی ساحل کے ساتھ ساتھ واقع ہے۔ یہاں کے باشندے علم و دولت میں یونانیوں اور مصریوں سے کسی طور کم نہ تھے۔ ایک اور محقق کی رائے یہ ہے کہ اگرچہ ثالیس ایشیائے کوچک کا ہی رہنے والا تھا مگر وہ یونانی تھا۔ تاہم وہ نسلاً فنیقی ہو یا یونانی، اس نے اپنی زندگی کا اکثر حصہ یونانی سلطنت میں بسر کیا تھا۔ اس لیے اس کا شمار یونانی دانش وروں میں ہوتا ہے۔ ثالیس کے زمانے میں یونانی سلطنت ایشیائے کوچک کے ساحلی علاقوں تک پھیلی ہوئی تھی۔ اس علاقے کا ایک شہر ملطوس تجارتی منڈی ہونے کے باعث خاص شہرت رکھتا تھا۔

ثالیس کا آبائی گھر اسی شہر میں واقع تھا، اس لیے عربی کتابوں میں وہ ’’ثالیس ملطی‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ باپ کا نام ’’ژامیس‘‘ اور اس کی ماں کا نام ’’کلوبولین‘‘ تھا۔ ثالیس کا باپ ایک دولت مند شخص تھا ۔ اس زمانے کے بہت سے امرا کی طرح ا س کا پیشہ سوداگری تھا۔ غالباً یہی سوداگری ثالیس کو پہلے پہل مصر لے گئی جو اس قدیم زمانے میں علم و دانش کا ایک بہت بڑا مرکز تھا۔ یہاں اس نے مصری اساتذہ کی شاگردی اختیارکی۔ ان اساتذہ کا اثر تھا کہ اس نے سوداگری کے آبائی پیشے کو چھوڑ کر علمی تحقیق کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا۔ اس نے اگرچہ مصری اساتذہ سے سائنس، فلسفے اور ریاضی کے سبق لیے تھے لیکن طبعاً وہ مقلد نہ تھا۔

اس کے خیالات ذاتی مشاہدے کا نتیجہ تھے۔ مظاہر فطرت میں سے سورج گرہن اور چاند گرہن کو انسان نے ہمیشہ حیرت و استعجاب کی نگاہوں سے دیکھا ہے اور جب تک اسے موجودہ زمانے کا کامل علم حاصل نہیں ہوا، اس نے ان مظاہر کے متعلق عجیب و غریب توجیہات پیش کی ہیں، خاص طور پر کامل سورج گرہن، جس کے دوران میں عین روزِ روشن میں دفعتاً رات کی سی تاریکی چھا جاتی ہے، توہم پرست انسانوں کے لیے ایک آفتِ عظیم تھی جس ٹالنے کے لیے جو کچھ ان کے دماغ میں آتا تھا کر گزرتے تھے۔ ثالیس نے سورج گرہن اور چاند گرہن کی اصل وجہ بیان کی، مگر لوگوں نے مذاق اڑایا۔ اپنی بات کو ثابت کرنے کے لیے اس نے کامل سورج گرہن کے متعلق حساب لگا کر اس کی صحیح تاریخ معلوم کی اور برسوں پہلے اس تاریخ کا اعلان کر دیا۔ 

لوگوں نے اس تاریخ کا بڑی بے صبری سے انتظار کیا اور جب اس تاریخ کو عین دن کے وقت رات کا سا اندھیرا چھا گیا تو ثالیس کی عظمت ان کے دلوں میں بیٹھ گئی۔ اس زمانے کے لوگوں کے نزدیک سورج روشنی کا ایک بڑا تھال تھا جس کا سائز وہ اتنا ہی سمجھتے تھے جتنا وہ ظاہری آنکھوں کو نظر آتا ہے۔ ثالیس نے سورج کے متعلق غالباً پہلے پہل انکشاف کیا کہ وہ لاکھوں میل چوڑا ہے۔ ثالیس کے لیے، جس کے پاس پیمائش کے جدید آلات نہیں تھے، سورج کے قطر کو اتنا چوڑا قرار دینا اس کی ہیئت دانی کا ایک شاہکار ہے۔ ثالیس سے پہلے شمسی سال 360 دن کا سمجھا جاتا تھا۔ ثالیس نے سال 365 دن کا بتایا۔ مصر میں ثالیس نے جیومیٹری کا علم حاصل کیا تھا جس میں اہل مصر خاص مہارت رکھتے تھے اور اس کی ایک حقیقی وجہ بھی تھی۔

اس زمانے میں مصری امرا کی بڑی بڑی زمینیں دریائے نیل کے کنارے تھیں۔ جب نیل میں طغیانی آتی اور اس کے بعد دریا کی گزرگاہ میں کچھ نہ کچھ تبدیلی واقع ہو جاتی تو ان زمینوں کے بعض حصے دریا برد ہو جاتے اور بعض حصے جو پہلے دریا برد ہو چکے تھے دوبارہ خشکی کا حصہ بن جاتے تھے، اس لیے ہر سال ان زمینوں کے رقبوں کی پیمائش کرنی پڑتی تھی۔ اس عملی ضرورت کے باعث ان کے ہاں جیومیٹری کی بنیاد پڑی جس میں مصری عالموں نے خاص مہارت حاصل کی۔ عملی جیومیٹری کا یہی علم ثالیس نے مصریوں سے حاصل کیا اور پھر اپنے دماغ کی جدت سے اس کو اثباتی جیومیٹری کے قالب میں ڈھال دیا۔ فلک بوس اہرام مصر آج سیاحوں کی منزل مقصود ہیں، یہ ثالیس کے زمانے میں بھی موجود تھے، ثالیس نے سائے کی مدد سے ان میں سے ہر ایک کی بلندی ناپی۔ اس کا طریقہ بہت سادہ تھا۔ 

اس نے دن کا ایک ایسا وقت منتخب کیا جب اس کا اپنا سایہ ناپنے پر عین اس کے قد کے برابر نکلتا تھا اور اس وقت مینار کے سائے کو ناپ لیا۔ ایک ایسے دور میں جب بعد کے زمانے کے تمام آلاتِ پیمائش ناپید تھے، اس سے زیادہ سادہ اور صحیح طریقہ اور کون سا ہو سکتا تھا۔ ثالیس کے ان کارناموں کے ساتھ ساتھ اس کی غلطیوں کی نشان دہی بھی ضروری ہے۔ اس کا خیال تھا کہ زمین ہی کائنات کا مرکز ہے، چاند، سورج اور ستارے زمین ہی کے گرد گھومتے ہیں۔ اس غلطی میں لوگ دو ہزار برس تک گرفتار رہے۔ دوسری غلطی یہ تھی کہ اس نے پانی کو تمام کائنات کا منبع قرار دیا۔ اس کے خیال میں دنیا بھر کی تمام چیزیں پانی سے پیدا ہوئی ہیں، مگر ان ابتدائی ایام میں ایسے خیالات کا نشوونما پا جانا کچھ اچنبھے کی بات نہیں ہے، کیونکہ دوسرے فلاسفہ کی طرف سے اس بارے میں اس سے بھی کہیں زیادہ عجیب و غریب خیالات کا اظہار کیا گیا ہے۔ اس پر اسے الزام نہیں دیا جا سکتا، خاص طور پر جب یہ حقیقت تو آج بھی مسلم ہے کہ پانی زندگی کے لیے خواہ وہ نباتات کی زندگی ہو یا حیوانات کی، ہوا کے بعد سب سے ضروری شے ہے۔

حمید عسکری

Post a Comment

0 Comments