Science

6/recent/ticker-posts

الرازی کا شاہکار 'الحاوی' : ایک عظیم طبی انسائیکلو پیڈیا

ابوبکر محمد ابن زکریا الرازی 864ء میں ایران کے شہر رے میں پیدا ہوئے۔ آپ نامور مسلمان عالم، طبیب، فلسفی، ماہر علم نجوم اور کیمیا دان تھے۔ جالینوس العرب کے لقب سے مشہور ہوئے۔ جوانی میں موسیقی کے دلدادہ رہے پھر ادب و فلسفہ، ریاضیات و نجوم اور کیمیا و طب میں خوب مہارت حاصل کی۔ دنیا کی تاریخ میں ان کا نام علم طب کے اماموں میں آتا ہے۔ پہلے کیمیا گری کے فن کو اس خیال سے اپنایا کہ کم قیمت دھاتوں کو سونے میں تبدیل کر کے بہت جلد امیر اور دولت مند بن جائیں گے۔ رائج طریقوں میں مختلف جڑی بوٹیوں کو ملا کر دھات کو آگ پر رکھنا پڑتا تھا اس لیے ایک دوا فروش سے دوستی ہو گئی اور وقت کے ساتھ طب کے علم میں دلچسپی لینے لگے۔ 

وہ طب کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے بغداد چلے گئے اور طب کے رموز سیکھے۔ بغداد کے بڑے شفاخانہ کے کئی برس اعلیٰ افسر رہے۔ یہ عرصہ انہوں نے طبی تحقیقات اور تصنیف وتالیف میں گزارا۔ ان کی سب سے مشہور کتاب ’’الحاوی‘‘ اسی زمانے کی یاد گار ہے۔ اس کا پورا نام ’’کتاب الحاوی فی الطب‘‘ ہے۔ الحاوی دراصل ایک عظیم طبی انسائیکلو پیڈیا ہے۔ بغداد میں طب کی تعلیم کی تکمیل کے بعد رازی اپنے وطن رے واپس آئے اور وہاں نہ صرف مطب کا سلسلہ جاری کیا، بلکہ بغداد کے طرز پر شہر میں ایک بڑا بیمارستان بنایا۔ رازی نے بہت سی کتابیں لکھیں جن میں طب کے علاوہ فلسفہ، کیمیا، ہیئت، نجوم ، ریاضی اور علوم طبیعی پر مشتمل کتب شامل ہیں۔

ان میں سب سے اہم کتاب الحاوی سمجھی جاتی ہے۔ الحاوی زکریا رازی کی نہایت بلند پایہ اور ضخیم تصنیف ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے امراض اور علاج کی ان تمام منتشر معلومات کو جمع کیا ہے جو متقدمین کی مختلف کتبِ طبیہ میں موجود تھیں۔ اس کتاب میں رازی نے ہر قول کا اس کے قائل کے نام کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ یہ کتاب رازی نے اپنی حیات کے دوران خود مکمل نہیں کی بلکہ رازی کی وفات کے بعد ابن العمید و دیگر نے اس کتاب کے مسودات فراہم کر کے رازی کے شاگردوں کی مدد سے مرتب کرایا تھا۔ چنانچہ ابن ابی اصیبعہ نے ابوالخیر حسن بن سورا کے حوالے سے کہا ہے کہ ابن العمید رازی کی کتاب الحاوی کے وجود میں آنے کا سبب بنا۔ الحاوی کی تعریف نہ صرف علمائے مشرق بلکہ مغرب کے ماہرِ تاریخ و فن بھی کرتے ہیں۔ 

مغرب میں بھی یہ طب کی انتہائی بلند پایہ تالیف قرار دی گئی ہے۔ چونکہ الحاوی کو رازی کے شاگردوں وغیرہ نے اس کی وفات کے بعد اس کی غیر مرتب تحریروں اور شفاخانہ کے اندراجات کی روشنی میں تالیف کیا، اس لیے الحاوی میں عنوانات اور موضوعات کی درجہ بندی اور ترتیب کی خامیاں رہ گئی ہیں۔ یہ کتاب کافی ضخیم اور مبسوط ہونے سے اس کے چند ہی نسخے نقل کیے جا سکے۔ عربوں کے عروج کے زمانہ میں اس کے چند ہی نسخے تھے اور دولت مندوں کے کتب خانوں کی زینت بنے رہے۔ فرج بن سالم نے اس کا لاطینی میں ترجمہ کیا جو بعدازاں کئی مرتبہ شائع ہوا۔ ابو ریحان البیرونی کے قول کے مطابق محمد بن زکریا الرازی نے 26 اکتوبر 925ء کو 61 سال شمسی کی عمر میں رے میں وفات پائی۔ رازی کی تصانیف سترہویں صدی عیسوی تک یورپ میں بڑی مستند تصور کی جاتی تھیں، ان کے تراجم لاطینی میں کیے گئے اور یورپ کی درسگاہوں میں بطور نصاب پڑھائی جاتی رہیں۔

محمد ریاض

Post a Comment

0 Comments