میری کیوری نے کم عمری ہی میں شہرت اور علم کی بہت زیادہ سیڑھیاں طے کر لیں۔ 36 برس کی عمر میں ایک نوبیل انعام، آٹھ برس بعد دوسرا نوبیل انعام، ایک سو سے اوپر اعزازی ڈگریاں، بیسیوں دیگر انعامات اور تمغے، اخباروں کی سرخیوں میں اتنی بار نام۔ یہ سب کسی کے حصے میں نہیں آیا۔ زندگی کے 17 ویں سال میں اس نے زندگی سے بھاگ جانے کی خواہش کی کیونکہ ’’جن دیواروں سے ہم سر پھوڑتے ہیں وہ ہمارے سروں سے زیادہ مضبوط ہیں۔‘‘ نا مرادیوں کی گود میں پلی زندگی محبت کی ٹھوکر برداشت نہ کر سکی۔ مگر آخر کار ناکامیوں اور تلخیوں سے اس کی دوستی اتنی گہری ہو گئی کہ جب قسمت نے اس کی زندگی کو پلٹا دینا چاہا تو اس نے گھبرا کر کہا ’’مجھے میری شہرت سے بچاؤ، اس نے میری زندگی حرام کر دی ہے۔‘‘
میری کیوری کے رتبہ کے سائنس دان اور بھی گزرے ہوں گے، اس سے بہتر انسان بھی قدرت نے پیدا کیے ہوں گے، اس سے زیادہ کامیاب بیویاں اور مائیں بھی دنیا میں ضرور ہوئی ہوں گی مگر ایک ہی شخصیت میں ذہانت، انسانیت، پیار اور ممتا کی اتنی مقدار کم ہی سمیٹی جا سکی۔ ایسی شخصیت کی تربیت کے لیے قدرت نے پوری فیاضی سے اپنی آزمائشیں پیش کیں، میری نے 1867ء میں ایک بہادر مگر مظلوم دیس میں، ایک صاحب علم مگر غریب گھرانے میں جنم لیا۔ جب روس کی برتر فوجی طاقت کے مقابلہ میں پولینڈ اپنی آزادی نہ بچا سکا، تو میری کے محب الوطن باپ کو وارسا کے ایک سکول کی نوکری سے بھی محروم ہونا پڑا۔
پانچ ذہین بچوں کے سوا اس کے پاس کوئی دولت نہ تھی۔ میری کو اپنے پہلے دس برس میں دو اور صدمے ملے۔ بڑی بہن اور ماں کی جدائی۔ دنوں موتیں بیماری کے ہاتھوں ہوئیں مگر مفلسی بھی موت کی سازش میں شریک تھی۔ چار بڑھتے ہوئے پیٹوں کے لیے ایندھن، ڈھکنے کے لیے کپڑے اور چار کھلتے ہوئے ذہنوں کے لیے علم حاصل کرنے کے واسطے غریب باپ نے جو ہاتھ پاؤں مارے اس سے اولاد کی ہمت بھی متحرک ہوئے بغیر نہ رہی۔ ہائی سکول کے امتحان میں چار میں سے تین بچے سونے کا تمغہ لے کر پاس ہوئے۔ تیسرا تمغہ سب سے چھوٹے بچے میری نے حاصل کیا تھا۔ دن رات کی پڑھائی سے میری کی صحت گر گئی۔ زندگی کا اگلا مرحلہ شروع کرنے سے پہلے باپ نے اسے کسی رشتہ دار کے پاس صحت بحال کرنے بھیجا۔
زندگی کی جدوجہد سے کوسوں دور، نوجوان ساتھیوں کی صحبت میں، حسین قدرت کی آغوش میں، سولہ سالہ میری جھوم اٹھی۔ اور چند لمحوں کے لیے ساری دنیا کو بھول گئی۔ ’’مجھے یقین نہیں آتا کہ الجبرا اور جیومیٹری نام کی کوئی بلائیں بھی دنیا میں ہیں۔ میرے ذہن کو انہوں نے خالی چھوڑ دیا ہے۔‘‘ میری نے اپنی ایک سہیلی کو لکھا۔ میری کا یہ سال اس کے سب سالوں سے الگ تھلگ تھا۔ یوں لگتا، اس نے ایک خواب دیکھا، جس میں اپنی اگلی پچھلی زندگی کی ساری کمیاں پوری کرنے کی کوشش کی۔ خواب ختم ہو گیا۔ میری اور اس کی بہن برونیا کو پیرس جا کر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی امنگ پیدا ہوئی۔ ادھر گھر کی مالی حالت ایک کا بوجھ بھی برداشت کرنے کے قابل نہ تھی۔ میری نے تجویز کیا کہ وہ کچھ عرصہ نوکری کر کے بہن کا خرچہ بھیجے گی۔
پڑھائی پورا کرنے پر بہن اس کا خرچہ برداشت کرے گی۔ وارسا کے باہر کسی گھرانے میں بچے پڑھانے کی نوکری مل گئی۔ تنخواہ کا زیادہ حصہ بہن کو چلا جاتا۔ اپنی ضرورتیں اس حد تک سکیڑ لیں کہ ڈاک کا خرچ بچانے کے لیے بھائی کو خط دیر سے لکھنے لگی۔ اس نوکری کے دوران میں مالک کا بڑا لڑکا یونیورسٹی کی چھٹیوں میں گھر آیا۔ دونوں نے ایک دوسرے کو پسند کیا، مگر میری کی سونی زندگی کو بہار کا یہ جھونکا ہرا نہ کر پایا۔ کیونکہ مالکن کو یہ گوارا نہ تھا کہ اس کا خاندانی بیٹا ایک استانی اور نوکرانی سے بیاہ کرے۔ ادھر لڑکے میں حکم عدولی کی ہمت نہ تھی۔ میری کا جواں دل ٹوٹ گیا۔ اس عالم میں اس نے خط میں ’’اس گھٹیا دنیا کو خیرباد‘‘ کہنے کی خواہش ظاہر کی۔ مگر پھر دل کے ٹکڑے جوڑے اور ان پر پتھر باندھ کر اپنا کام جاری رکھا۔
برونیا نے ڈاکٹری پاس کر لی اور شادی کر لی۔ وعدہ نبھانے کے لیے اس نے میری کو مزید تعلیم کے واسطے پیرس بلایا۔ میری کا دل اچاٹ تھا مگر بہن کے بہت اصرار پر وہ پیرس چلی گئی۔ جہاں 23 سال کی عمر میں وہ کالج میں داخل ہوئی۔ ایک سستے کرایہ کے مکان میں، جہاں روشنی تھی نہ پانی اس نے چار برس بتائے۔ ہلکے کپڑوں کی وجہ سے اسے بے حد سردی لگتی۔ ناکافی خوراک اور کافی کام کی وجہ سے ایک بار بے ہوش ہو گئی۔ بہن اور بہنوئی اسے اپنے پاس رکھنے پر رضامند نہ کر سکے۔ اسے اپنی پڑھائی اور فاقہ مستی کی زندگی میں کوئی خلل پسند نہ تھا۔ جماعت کا کمرہ، لیبارٹری، کتابیں اور اپنی اندھیری کوٹھری اس کی ساری کائنات تھے۔ مگر اس کے علم کا دائرہ فزکس، کیمسٹری، ریاضی، شاعری، موسیقی اور ستاروں کے جہاں تک وسیع ہوتا جا رہا تھا۔
میری ایم اے کے امتحان میں اول رہی۔ فزکس کے بعد اگلے سال اس نے ریاضی کا ایم اے کیا، جس میں دوسرا نمبر ملا۔ اب زندگی میں کوئی اور ارمان نہ تھا، سوائے مزید پڑھائی اور مزید ریسرچ کے۔ پیرس میں ایک نوجوان سائنس دان پیری کیوری بھی رہتا تھا۔ اس کی زندگی کا ارمان بھی سائنس تھا۔ ایک بار کسی پروفیسر کے گھر دونوں کی ملاقات ہوئی۔ بات چیت سائنس کے موضوع سے شروع ہو کر ایک دوسرے میں دلچسپی تک جا پہنچی۔ چند ملاقاتوں کے بعد پیری نے شادی تجویز کی۔ میری کا مرجھایا دل دوسری محبت سے فوراً کھل نہ سکا مگر سال بھر کی ٹال مٹول کے بعد اس نے پیری کی محبت کے آگے ہتھیار ڈال دیے۔ میری نے اپنے خاوند کا ذکر کرتے ہوئے اپنی بہن کو ایک بار لکھا۔ ’’خواب میں بھی اس سے بہتر خاوند کا تصور نہیں ہو سکتا۔ مجھے کبھی وہم و گمان بھی نہ تھا کہ ایسا خاوند ملنا ممکن ہے۔ وہ قدرت کا بہترین تحفہ ہے۔‘‘
0 Comments