ملک شاہ نے عمر خیام کی سرکردگی میں جو رصد گاہ قائم کی تھی اس کے عملے میں ایک ممتاز ہیئت دان میمون بن نجیب واسطی تھا۔ اس کے آباؤ اجداد واسط کے رہنے والے تھے اس لیے وہ واسطی کہلاتا تھا، ورنہ رصدگاہِ ملک شاہ سے منسلک ہونے سے پہلے اس کی اپنی اقامت ہرات میں تھی۔ ان ایام میں ہرات کا حاکم ایک امیر شریف الدین ظہیر الملک علی بن حسن بیہقی نامی تھا جو ہیئت اور ریاضی سے شغف رکھتا تھا اور اس لیے وہ میمون واسطی کا، جو ان علوم میں ماہر تھا، بہت بڑا قدر دان تھا۔ غالباً اسی کے توسط سے میمون واسطی کو شاہی رصدگاہ میں جگہ ملی تھی۔
ہیئت اور ریاضی کے علاوہ میمون واسطی کو طب میں دست گاہ حاصل تھی۔ طبعاً وہ عزلت نشین تھا اور اربابِ ثروت سے بہت کم میل جول رکھتا تھا۔ باوجود اس امر کے کہ حاکمِ ہرات علی بیہقی اس سے گہری عقیدت رکھتا تھا اور اس کی ملاقات کا متمنی رہتا تھا، واسطی اس کے دربار میں بہت کم جاتا تھا۔ ملک شاہ کی رصد گاہ میں شامل ہونے کے بعد بھی اس کا طرزعمل یہی رہا کہ وہ اپنے کام سے سروکار رکھتا تھا اور روز و شب مشاہدات فلکی اور مطالعہ کتب کے سوا اس کی کوئی اور دل چسپی نہ تھی۔ اس نے گیارہویں صدی کے آغاز میں وفات پائی۔
0 Comments